کل ایک دوست بتا رہا تھا کہ اس کے گاؤں کے نمبردار نے اعلان کیا کہ ملک میں کورونا کی وبا پھیلی ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے کیے گئے لاک ڈاؤن کے دوران حکومت غریب خاندانوں کی امداد کر رہی ہے جس کے لیے فلاں وقت فارم تقسیم ہوں گے۔
وقت مقررہ پر دو ہزار کے قریب لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا جس میں موجود ہر شخص ایک دوسرے کو پیچھے دھکیل کر فارم لینا چاہتا تھا۔ نمبردار نے فارم کی قیمت بیس روپے لگا دی جو سب نے بخوشی ادا کر دی۔ چند گھنٹوں میں اس شخص نے چالیس پچاس ہزار روپے جمع کر لیے۔ جن افراد نے یہ فارم حاصل کیے ان کی اکثریت نہیں جانتی کہ انہیں پر کیسے کرنا ہے۔ اگرچہ نمبردار فراڈ کر رہا تھا لیکن اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو فارم پر کرنے کے بہانے کئی دیگر لوگوں کے لیے کمائی کا ایک اور رستہ کھل جاتا۔
کورونا جیسی وبا کو پھیلنے سے روکنے کا جو نسخہ اب تک سامنے آیا ہے اس کا اہم ترین جزو گھر سے باہر سماجی فاصلہ قائم رکھنا ہے۔ اگر ان دو ہزار افراد میں چند لوگ کورونا کا شکار ہوں گے تو اس چھینا جھپٹی کے دوران انہوں نے نہ جانے کتنے مزید لوگوں تک یہ وائرس پھیلایا ہو گا، اور یہ نئے متاثرین جب اپنے گھروں میں جائیں گے یا دوستوں اور عزیزوں سے ملیں گے تو اس نادیدہ دشمن کو کتنے نئے شکار مل جائیں گے۔
گاؤں کا نمبردار، جس نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ایک بھاری رقم کھری کر لی، اس نے خود کوئی حفاظتی انتظام نہیں کیا ہوا تھا۔ فارم تقسیم کرتے وقت اس کے ہاتھوں نے بےشمار افراد کو چھوا ہو گا، کسی کو اس نے دھکا دے کر پیچھے ہٹایا ہو گا، کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر شناسائی جتائی ہو گی، کوئی اس سے فارم لیتے وقت اور پیسے دیتے وقت دامن گیر بھی ہوا ہو گا۔ المیہ یہ ہے کہ کورونا سے محفوظ رہنے کے لیے لاک ڈاؤن کیا گیا اور عوام کے لیے رقوم تقسیم کرنے کا اعلان خود اس کی خلاف ورزی پر منتج ہوا۔
نمبردار ایک غیر اہم اور بے وقعت سا عہدہ ہے جو شاید اب حکومتی مشینری میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ التبہ اونچی سطح سے لے کر مستحقین کے در تک امداد کی رقم پہنچانے کی ایک طویل زنجیر ہے جس کی بے شمار کڑیاں حکومتی اعلانات سنتے ہی حرص و آز کے مقناطیس میں بدل چکی ہوں گی تاکہ سرکاری سکے قریب سے گزرتے ہوئے ان سے چپک جائیں۔ جتنی بڑی زنجیر، اتنا ہی طاقتور مقناطیس۔۔ اور اتنے ہی زیادہ سکے۔
باقی دنیا میں بڑے بحران نئے ہیرو پیدا کرتے ہیں، ہمارے ہاں صرف کرپشن کے نت نئے طریقے جنم لیتے ہیں۔ آج ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ کراچی میں کورونا مریضوں کی چیکنگ کے بہانے ڈاکو گھروں میں داخل ہوتے ہیں اور ساز و سامان لوٹ لیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک شخص گاڑی سے اترتا ہے اور اے ٹی ایم مشین کے ساتھ رکھا سینی ٹائرز جیب میں ڈال کر واپس گاڑی میں بیٹھ جاتا ہے۔ اس نمبردار نے بھی اس بحران سے فائدہ اٹھایا اور اچھی خاصی رقم ایسے لوگوں سے بٹور لی جو حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی کیونکہ یہ کرپشن ایک بڑے سماجی المیے کا صرف ایک پہلو ہے۔ وہ معاشرتی شعور جسے دنیا سوک سینس کہتی ہے وہ ہمارے ہاں ناپید ہے اور اس تہی دامنی کی مثالیں قدم قدم پہ بکھری دکھائی دیتی ہیں۔
ہم گھر سے گاڑی یا موٹر سائیکل باہر نکالتے ہیں تو اسے سڑک کے بیچ میں ٹھہرا کر گیٹ بند کرنے چلے جاتے ہیں، اس دوران دونوں اطراف کی ٹریفک رکی رہتی ہے۔ دفاتر میں کام کرتے وقت قطار میں کھڑے افراد کی طرف توجہ دینے سے زیادہ فون پہ گپ شپ کرنا یا اپنے ساتھیوں سے ہنسی مذاق کرنا ہمیں پسند ہے۔ مصروف سڑک پر اگر دو دوست اپنی اپنی موٹر سائیکلوں پر جا رہے ہوں تو ایک دوسرے سے بات کرنے کے لیے موٹر سائیکل شانہ بہ شانہ رکھنا اشد ضروری گردانتے ہیں، چاہے اس سے ٹریفک کی روانی میں کتنا ہی خلل واقع کیوں نہ ہو رہا ہو۔
اپنے کسی جاننے والے کو ماسک پہن کر سماجی فاصلہ قائم رکھنے کی کوشش کرتے دیکھتے ہیں تو یہ کہہ کر اس سے زبردستی لپٹ جاتے ہیں کہ یار کچھ نہیں ہوتا۔ کسی جاننے والے سے ملاقات ہو تو یہ سوال ضرور پوچھا جاتا ہے کہ آج کل کیا کر رہے ہو۔۔ اگر یہ سوال رسمی انداز میں پوچھا جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن بہت بار اس میں کرید شامل ہوتی ہے۔ نہ جانے کیوں ہم ہر بات جاننا چاہتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ ہم ذہنی طور پر جاگیردارانہ معاشرے کا حصہ ہیں مگر عملی طور پر وقت کی رو نے کھینچ کر سرمایہ دارانہ نظام کی طرف پھینک دیا ہے۔ اس کی وجہ سے دوعملی پیدا ہو گئی ہے۔ جاگیردارانہ دور کی کاہلی ہمیں سرمایہ دارانہ دور کی مقابلے کی فضا میں شارٹ کٹ تلاش کرنے پر مجبور کرتی ہے اور یہیں سے کرپشن شروع ہوتی ہے جو ہمارے معاشرے کا شاید سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔