• Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
پیر, ستمبر 22, 2025
  • Login
No Result
View All Result
NEWSLETTER
Rauf Klasra
  • Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
  • Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
No Result
View All Result
Rauf Klasra
No Result
View All Result
Home انتخاب

مودی حکومت نے بھارت میں آزادی صحافت کا خاتمہ کیسے کیا؟

by sohail
اپریل 3, 2020
in انتخاب, تازہ ترین, دنیا
0
مودی حکومت نے بھارت میں آزادی صحافت کا خاتمہ کیسے کیا
0
SHARES
0
VIEWS
Share on FacebookShare on Twitter

بھارت میں نریندرا مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد آزادی صحافت پر حملے ہو رہے ہیں، امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی مطابق اس وقت بھارت میں آزادی صحافت باقی نہیں رہی، 2014ء میں اقتدار میں آنے کے بعد مودی حکومت کی جانب سے میڈیا کو کنٹرول کرنے کی مسلسل کوششیں کی گئی ہیں۔

بھارتی صحافیوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں کسی بھی بھارتی وزیراعظم کی جانب سے میڈیا کنٹرول کرنے کیلئے اتنی کوشش نہیں کی گئی جتنی موجودہ حکومت کر رہی ہے۔ کورونا وبا کے دوران مزید کھل کر میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

چھ مارچ کو بھارت کی وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے میڈیا ون ٹی وی کی نشریات کو دو دن کیلئے بند کر دیاگیا کیونکہ اس چینل کی جانب سے نیو دہلی میں مسلمانوں پر حملوں کی کوریج کی گئی تھی۔

نشریات بند کرنے کے سرکاری حکم نامہ میں کہا گیا تھا کہ ٹی وی چینل نے مسلمانوں پر حملے کو دہلی پولیس اور آر ایس ایس پر تنقیدی انداز میں رپورٹ کیا تھا۔

میڈیا ون میں بطور ایڈیٹر کام کرنیوالے آرسبھاش کی جانب سے بھارتی حکومت کے اس عمل کو حیران کن قرار دیا گیا۔

بھارت میں سینئر حکام کی جانب سے میڈیا ہاؤسز پر مختلف انداز میں دباؤ ڈال کر مودی حکومت کے ناپسندیدہ کاموں کی کوریج نہ کرنے کیلئے مجبور کیا جاتا ہے۔

حکومتی ہتھکنڈوں میں حکام بالا کی جانب سے ایڈیٹرز کی سرزنش، اشتہارات میں کمی، چینلز یا اخباروں کے خلاف ٹیکس تحقیقات شامل ہیں۔

کورونا وبا کے دوران مودی حکومت دلیرانہ انداز میں کوریج کنٹرول کرنے کی کوشش میں ہے اور لگتا ہے جیسے چند میڈیا ایگزیکٹوز بھی اس بار مودی کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں۔

دنیا کا سب سے بڑا لاک ڈاؤن لگانے سے پہلے مودی نے ٹاپ نیوز ایگزیکٹوز سے ملاقات کرکے انہیں حکومتی کوششوں کو مثبت اور حوصلہ افزا انداز میں پیش کرنے کیلئے ابھارا۔

اس کے بعد جب اس لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں 5لاکھ سے زائد لوگ رل گئے اور کچھ سڑکوں پر ہلاک ہوگئے تو مودی حکومت کے وکلاء نے سپریم کورٹ کو قائل کیا کہ تمام میڈیا کو یہ احکامات جاری کئے جائیں کہ کورونا وائرس وبا کی پیشرفت بارے سرکاری مؤقف چھاپا جائے۔

بہت سے دانشوروں کی جانب سے عدالتی فیصلہ کو آزادی اظہار پر حملہ قرار دیا گیا مگر ملک کی معروف براڈکاسٹر تنظیم کی جانب سے اس کی تعریف کی گئی۔

بھارت میں 1700 سے زائد اخبار، ایک لاکھ سے زائد میگزین، 178 ٹی وی نیوز چینلز اور درجنوں زبانوں میں ان گنت ویب سائٹس ہیں۔ مودی حکومت کے وزراء کی جانب سے کاروباری حضرات پر دباؤ ڈالا گیا ہے کہ وہ آزاد صحافت کیلئے حمایت ختم کریں۔

بھارتی حکومت نے میڈیامالکان پر دباؤ ڈال کر وزیراعظم مودی پر تنقید کرنیوالے صحافیوں کو نوکریوں سے نکلوا دیا ہے۔

بھارتی وزیراعظم کو میڈیا کے خلاف ان اقدامات کیلئے آن لائن حامیوں کی ایک بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہے جو صحافیوں کو گالیاں دیتے ہیں اور ہراساں کرتے ہیں۔

یہ آن لائن فوج خواتین صحافیوں کو گالیوں سے نوازنے کے ساتھ ساتھ عزت لوٹنے کی دھمکیوں سے نوازتی ہے، پولیس کے مطابق 2017ء میں بھارتی خاتون صحافی گوری لنکیش کے قتل میں ہندو قوم پرست ملوث تھے۔

نریندرا مودی حکومت کی جانب سے اچانک اور بغیر کسی وضاحت کے غیر ملکی صحافیوں پر سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں۔، ان کیلئے ویزوں میں سختی کے ساتھ ساتھ انہیں شمالی انڈیا اور جموں و کشمیر جانے سے روک دیا گیا ہے۔

مودی کے کشمیر کے خصوصی اسٹیٹس کو ختم کرنے کے معاملہ پر اب کئی صحافی کہہ رہے ہیں کہ انہیں وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے تھا۔

بھارت کے معروف نیوز اینکر راجدیپ سرڈیسائی کا کہنا ہے کہ انہوں نے کشمیر کی بڑی خبر کے ساتھ انصاف نہیں کیا، ان کا کہنا ہے کہ بھارتی میڈیا کو کشمیر جاکر آزادانہ رپورٹنگ کرنا چاہئے تھی۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق اینکر راجدیپ سرڈیسائی کا کہنا ہے کہ بھارتی میڈیا کا ایک بڑا حصہ ”واچ ڈاگ“ کی بجائے lap dogبن چکا ہے۔

سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ملک اس وقت پریس فریڈم انڈیکس میں 180ممالک میں 140نمبر پر ہے۔

بھارت میں این ڈی ٹی وی چینل کو مودی حکومت کی جانب سے سب سے زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس چینل سے مودی کی مخالفت 18 برس پرانی ہے۔

2002 میں جب مودی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو اس چینل کے صحافیوں نے اس وقت مسلمانوں کے قتل عام اور مودی حکومت کے کردار کو رپورٹ کیا تھا۔

نریندرا مودی نے وزیراعظم بنتے ہی اس چینل پر حملے شروع کر دیے، اس پر منی لانڈرنگ کے الزامات لگائے گئے اور ملک دشمن ہونے کا لیبل آویزاں کیا گیا۔

2016 میں آٹومیکر ’ڈیملر‘ کی جانب سے ایک ای میل کے ذریعہ این ڈی ٹی وی کو کہا گیا کہ وہ کمپنی کی مارکیٹنگ مہم پر مزید پیشرفت نہ کرے کیونکہ اس چینل سے ایسے لوگ وابستہ ہیں جنہیں عوام ملک دشمن سمجھتی ہے۔

مودی حکومت نے کاروباری لوگوں پر دباؤ ڈالا جس سے چینل کو اشتہارات میں کمی ہوئی۔ اشتہارات میں کمی کے بعد اسے کئی صحافیوں کو نکالنا پڑا۔ این ڈی ٹی وی کو اب زیادہ تر اشتہارات ریاستی حکومتوں سے ملتے ہیں۔ یہ ریاستی حکومتیں اپوزیشن جماعتوں کی ہیں۔

بہت سے دائیں بازو کے صحافی اور اینکرز ہندو قوم پرستی کی کی وجہ سے مودی حکومت کی حمایت میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہیں۔

جب حکومت نے کشمیر میں کریک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا تو ٹائمز نیٹ ورک کے ایم ڈی ایم کے آنند نے اپنے ایڈیٹرز کو ایک پیغام بھیجا تھا جس میں انہیں مودی کی قومی حکومت کی غلطیاں نکالنے کی بجائے اس کا ساتھ دینے کا حکم دیا گیا تھا۔

ایسے ماحول میں مودی حکومت پر شدید تنقید کسی بھی صحافی یا اینکر کا کیریئر ختم کر سکتی ہے۔ ہندی نیوز چینل اے بی پی کے میزبان کی جانب سے وزیراعظم مودی کے کسانوں کی مدد کے اقدام پر سوال اٹھائے گئے تو چینل کی سیٹیلائٹ ٹرانسمیشن میں مسائل آنے لگے۔

چینل مالک نے مودی حکومت پر تنقید کرنیوالے میزبان سے استعفیٰ لیا تو سیٹیلائٹ ٹراسمیشن میں ہونیوالی گڑبڑ ٹھیک ہو گئی۔

اسی طرح اس چینل کے ایک اور اینکر ابھیسار شرما کو مودی پر تنقید کے بعد چینل چھوڑنا پڑا۔ اس اینکر نے یوٹیوب کا سہارا لیا تو حکومت کے حامی ”ٹرولز“ نے یوٹیوب کو شکایتیں لگانا شروع کردیں کہ وہ اینکر یوٹیوب پر نامناسب ریمارکس دیتا ہے۔ یوں اسے یوٹیوب آمدن سے بھی ہاتھ دھونا پڑ گئے۔

قصبوں کی سطح پر کام کرنیوالے صحافی بھی حکومتی عتاب کا نشانہ بن رہے ہیں۔ مودی کے پارلیمانی حلقہ سے سکول میں بچوں کی حالت زار پر ویڈیو بنانے والے پارٹ ٹائم صحافی پون کمار جیسوال کی ویڈیو وائرل ہوئی تو محکمہ تعلیم کے افسر نے انکے خلاف کرمنل شکایت درج کرا دی۔

صحافی کے سورس کو فوری گرفتار کر لیا گیا اور ویڈیو بنانے والے کو دہلی بھاگ کر کئی ہفتے چھپنا پڑا۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق اس مقامی صحافی کے خوفزدہ ہونے کی وجہ بنتی ہے کیونکہ حالیہ برسوں میں بھارت میں کئی صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔

Tags: مودی اور آزادی صحافت
sohail

sohail

Next Post
پرائیویٹ اسکول کی فیسوں میں کمی کا امکان

پرائیویٹ اسکول کی فیسوں میں کمی کا امکان

اٹلی میں کورونا سے ہلاکتوں کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے

اٹلی میں کورونا سے ہلاکتوں کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے

کورونا وائرس لاک ڈاؤن: پولیو، خسرہ جیسی بیماریاں پھر سے لوٹ سکتی ہیں

کورونا وائرس لاک ڈاؤن: پولیو، خسرہ جیسی بیماریاں پھر سے لوٹ سکتی ہیں

ایران کو طبی امداد کی فراہمی، تین بڑے ممالک نے امریکی پابندیاں نظرانداز کر دیں

ایران کو طبی امداد کی فراہمی، تین بڑے ممالک نے امریکی پابندیاں نظرانداز کر دیں

5 جی ٹیکنالوجی دنیا میں کونسے انقلاب لا رہی ہے؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • About
  • Advertise
  • Careers
  • Contact

© 2024 Raufklasra.com

No Result
View All Result
  • Home
  • Politics
  • World
  • Business
  • Science
  • National
  • Entertainment
  • Gaming
  • Movie
  • Music
  • Sports
  • Fashion
  • Lifestyle
  • Travel
  • Tech
  • Health
  • Food

© 2024 Raufklasra.com

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In