کورونا وبا کے عالمی معاشی نظام پر گہرے اثرات مرتب ہونے کے امکانات ہیں، اس وبا نے رائج نظام کی خامیوں کو اجاگر کر دیا ہے۔
ماہرین کی جانب سے ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ کورونا وبا دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ یہ وبا اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام کیلئے خطرہ ہے جیسے 1340 میں طاعون کی وبا اس وقت رائج جاگیردارانہ نظام کیلئے خطرہ بن گئی تھی۔
14ویں صدی کے وسط میں بوبونک طاعون یا سیاہ موت نے ایشیاء اور یورپ میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی جس میں کروڑوں لوگ مرگئے۔ بریٹانیکا ڈاٹ کام کے مطابق اس وبا سے یورپ میں لگ بھگ ڈھائی کروڑ اموات ہوئی تھیں۔ اس وبا کے خاتمہ کے بعد بغاوتیں ہوئیں جن سے اس وقت کے رائج سیاسی و معاشی نظام ہل کر رہ گئے۔
سیاہ موت کی وبا سے کام کرنیوالے افراد کی تعداد میں بڑے پیمانے پر کمی ہوگئی تھی جس سے زندہ بچ جانیوالے افراد کی سودے بازی کی قوت بڑھ گئی تھی۔
کیا دنیا عالمی قحط سالی کی جانب بڑھ رہی ہے؟
کیا کورونا وائرس مغربی جمہوریتوں کو مستقل تبدیل کر دے گا؟
کورونا کے اثرات کے متعلق دنیا کے بڑے بنکوں کی پیش گوئیاں
اس سے معاشی نظام میں تبدیلی کا عمل شروع ہوا اور جاگیرداری نظام ختم ہونے لگا، بعض معاشی ماہرین کے مطابق اس کے نتیجہ میں سرمایہ دارانہ نظام کا تصور پھلا پھولا۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وبا بھی طاعون کی مانند اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک میں رائج سرمایہ دارانہ نظام کیلئے خطرہ بن سکتی ہے۔
کورونا وبا سے آنیوالی بڑی تبدیلیاں
اب تک یہ کورونا وبا دنیا بھر کے ممالک میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لا چکی ہے۔
پہلی تبدیلی
اس وبا کے باعث دنیا کے آدھے سے زائد لوگ لاک ڈاؤن میں ہیں۔ اس نے بھارت سمیت کئی ایشیائی ممالک، یورپ کے بیشتر ممالک اور امریکہ کی کئی ریاستوں میں معمولات زندگی مکمل یا جزوی طور پربند کر دیے ہیں۔
دوسری تبدیلی
کورونا وبا نے سیاسی اشرافیہ اور حکومتوں کی شہرت کو نقصان پہنچایا ہے۔ ان حکومتوں اور سیاستدانوں کی جانب سے اس خطرے کی سنجیدگی کو نظرانداز کر دیا گیا تھا اور جب یہ وبا حملہ آور ہوئی تو حکومتوں کا نظام صحت اس کے متحرک ہونے میں ناکام رہا جسے ریاست کی ناکامی کے مترادف سمجھا جا رہا ہے۔
تیسری تبدیلی
دنیا کی تمام معیشتوں میں صارفین کی جانب سے اخراجات میں بڑے پیمانے پر گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے جس سے بڑے پیمانے پر عالمی معاشی گراوٹ کے خطرات ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظآم کی بنیادیں ہِل گئی ہیں
لند ن کے صحافی اورفلم ساز ’پال میسن‘ کے مطابق کورونا وبا سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں ڈھانے جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نظام میں تمام معاشی زندگی کا دارومدار لوگوں کو کام پر جانے اور بعدازاں آمدن خرچ کرنے پر ہے۔
ان کے مطابق سرمایہ دارانہ نظآم میں لوگوں کو یہ دونوں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن کورونا وبا کے دوران ہم الٹ کررہے ہیں۔ اب ہم لوگوں کو گھروں پر رہنے پر مجبور کررہے ہیں اور انہیں ان تمام جگہوں پر جانے سے روک رہے ہیں جہاں پر وہ اپنی آمدن خرچ کرتے تھے۔ ان کے مطابق یہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ڈھانے کے برابر ہے۔
کورونا وائرس عالمی سطح پر کیا تبدیلیاںلائے گا؟ دنیا کے 12 معروف دانشوروں کی پیش گوئیاں
کورونا وبا کی روک تھام : غریب ممالک کیلئے تین اہم سبق
پال میسن کا کہنا ہے کہ کورونا وبا ء کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کی جو شکل ہمارے سامنے آئے گی اس میں ائیرلائنز اور ہوٹل کو قومیا لیا جائے گا
ان کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں حکومتوں کے قرضے بڑھ چکے ہوں گے اور وبا کے خاتمہ کے بعد دنیا بھر کی سیاسی اشرافیہ کی جانب سے عوامی فلاحی منصوبوں جیسا کہ ہیلتھ کئیر وغیرہ میں اخراجات میں کمی کی جائے گی۔
پال میسن کے مطابق مستقبل میں عام آدمی پرٹیکس بڑھیں گے جبکہ حکمران سیاسی اشرافیہ کفایت شعاری کا درس دے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ 14ویں صدی میں اس وقت کی جاگیر دار اشرافیہ نے بھی’سیاہ موت‘سے بچ جانے والے افراد پر ایسے ہی معاشی احکامات نافذ کئے تھے لیکن ان سب اقدامات کا نتیجہ خونی بغاوتوں کی شکل میں نکلا تھا۔
پال میسن کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام کا لمبے عرصہ تک بچے رہنا مشکل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 14ویں صدی کے ’بوبونک طاعون‘ کے خاتمہ کے بعد لوگوں نے جاگیرداری نظام کو آہستہ آہستہ رد کرکے نئے معاشی نظام کے تصور کو پنپنے کا موقع دیا تھا۔ اب یہ ممکن ہے کہ کورونا وبا کے خاتمہ کے بعد لوگ سرمایہ دارانہ نظام کو ترک کرنے کا سوچیں۔