وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم نے اصل لاک ڈاؤن صرف شہروں میں کیا ہے، دیہاتوں میں زرعی شعبے کے لیے کوئی لاک ڈاؤن نہیں ہو گا، تعمیراتی شعبے میں بھی 14 اپریل سے لاک ڈاؤن ختم کر دیں گے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 5 کروڑ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔لاک ڈاؤن سے ریڑھی، چھابڑی، مزدور طبقے کی آمدنی اور وسائل کی فکر تھی۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں ہر صوبے نے اپنی ضرورت کے مطابق لاک ڈاؤن کیا ہے، دنیا بھر میں ہر ملک نے اپنے انداز میں لاک ڈاؤن کیا ہے، اس لیے ہمارا طریق کار چین اور یورپ سے مختلف ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ زرعی شعبے کو لاک ڈاؤن نہیں کیا گیا تاکہ عوام کو خوراک کی فراہمی یقینی ہو سکے۔ 14 اپریل سے تعمیراتی شعبے کے لیے بھی لاک ڈاؤن ختم کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے بتایا کہ کل سے احساس پروگرام شروع ہو رہا ہے، اب تک ساڑھے 3 کروڑ لوگوں نے امداد حاصل کرنے کے لیے پیغامات بھیجے ہیں۔ سارے پاکستان میں 17 ہزار پوائنٹس سے 12 ہزار روپے کی وصول کی جا سکے گی۔
انہوں نے بتایا کہ ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں کو پیسے دیے جائیں گے، ایک سو 44 ارب روپے مستحق طبقے میں تقسیم کریں گے، یہ مرحلہ دو سے اڑھائی ہفتوں میں مکمل ہو جائے گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ جس علاقے کو قرنطینہ میں تبدیل کیا جائے اس علاقے کے لوگوں کو ہماری ٹائیگر فورس گھروں میں کھانا پہنچائے گی اور لاک ڈاؤن کو مکمل کامیاب بنانے کا یہی واحد حل ہے۔
اس موقع پر عثمان ڈار نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب سے 5 لاکھ،سندھ سے ایک لاکھ، خیبر پختونخواہ سے 90 ہزار، بلوچستان سے 10 ہزار، آزاد کشمیر سے 8 ہزار اور گلگت بلتستان سے 5 ہزار لوگوں نے خود کو ٹائیگر فورس کے لیے رجسٹرڈ کیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم نے 8 ارب ڈالرز کا ریلیف پیکیج دیا ہے تاہم کورونا دو ہفتوں میں ختم نہیں ہو رہا اس لیے ہمیں مالی مدد کی بھی ضرورت ہے۔
کورونا کے مریضوں میں 100 میں ایک کی موت واقع ہوتی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی عوام احتیاط نہیں کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری سوچ بھی ایسی ہی ہے کہ 100 میں سے ایک نے مرنا ہے اس لیے خیر ہے لیکن اس کا نقصان یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں میں موجود بڑی عمر کے افراد کو خطرہ میں ڈال سکتے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ہمارا مدافعتی نظام بہتر ہے اس لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں، یہ بالکل غلط سوچ ہے، خدا کے لیے احتیاط کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اتنے وینٹی لیٹرز نہیں ہیں کہ بیماری پھیلنے کی صورت میں شدید بیماروں کو یہ سہولت فراہم کی جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی زیادہ لوگ اکٹھے ہوتے ہیں تو یہ بیماری پھلتی ہے۔ ہم سب کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہے اور گھروں میں رہنا ہے۔