کورونا وبا کے پوری دنیا میں پھیلنے کے بعد یورپی حکومتوں نے اس بات پر غور شروع کر دیا ہے کہ وبا پھیلنے سے بچاؤ کے ساتھ ساتھ فیکٹریوں، سکولوں اور دفاتر کو کیسے دوبارہ کھولا جائے۔
آسٹریا نے پیر کو اعلان کیا ہے کہ ایسٹر تہوار کے بعد دکانیں آہستہ آہستہ دوبارہ کھولی جائیں گے، آسٹریا یورپ میں پہلا ملک ہوگا جو معمولات زندگی کا دوبارہ آغاز کرے گا۔
حکومتو پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ معیشت کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے منصوبے سامنے لائیں، اس بات کا خوف پایا جاتا ہے کہ اگر پابندیاں زیادہ عرصہ تک رہیں تو کھانے پینے اور طبی سہولیات کی فراہمی متاثر ہو سکتی ہے۔
سی این این کے مطابق جرمنی میں ایک لاکھ کورونا کیسز سامنے آئے اور 1600 افراد ہلاک ہوئے۔ جرمنی میں ماہر معاشیات، وکلاء اور ماہر تعلیم یورپ کی سب سے بڑی معیشت کو دوبارہ کھڑا کرنے کی سفارش کر رہے ہیں تاکہ مخصوص صنعتیں کھلیں اور ملازمین اپنی سرگرمیاں شروع کریں۔
کیا کورونا وبا سرمایہ دارانہ نظام کیلئے خطرہ ہے؟
کورونا وباء کے باعث بیروزگاری تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ جائے گی، ماہرین معاشیات
کیا کورونا وائرس مغربی جمہوریتوں کو مستقل تبدیل کر دے گا؟
درجنوں ماہرین تعلیم نےانسٹیٹیوٹ فار اکنامکس ریسرچ کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ وہ 2021 سے پہلے انہیں کورونا کے علاج کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔ نتیجتاً جرمنی کو میراتھون کی طرح وبا سے لڑنا چاہیے۔
مستقبل میں ایک طرف بہترین سہولیات مہیا کی جاتئیں اور دوسری طرف ان کے ہمہ وقت میسر ہونے کو بھی یقینی بنایا جائے۔ اس تبدیلی کی منصوبہ بندی جلد ہی سیاست، انتظامیہ، کمپنیوں اور دوسرے اداروں کو شروع کر دینی چاہیے۔
جرمن حکام کے مطابق اگر لاک ڈاؤن تین ماہ جاری رہا تو اس سے جی ڈی پی کو 20 فیصد نقصان ہوگا۔
جرمن حکومت نے 750 ارب یورو کے ریسکیو پیکج کا اعلان پہلے ہی کر دیا ہے جس میں کاروبار اور ملازم طبقے کا تعاون شامل ہے۔ یہ دنیا میں سب سے بڑا پیکج ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کو جلد ہی ایک قومی ٹاسک فورس بنانی چاہیے جس میں ماہرین اور عوامی نمائندے شامل ہوں جو کام پر پابندیاں آسان کرنے اور پیداوار کے آغاز کے لیے سفارشات مرتب کرے۔
آٹو اور مواصلات جیسی صنعتیں جو معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں کو ترجیحات میں شامل کیا جانا چاہیے۔
بھارت میںلاک ڈاؤن بیروزگاری، اموات، ہجرت اور بھوک کی دردناک داستان بن گیا
دنیا کو ایک طویل عرصے کے لاک ڈاؤن کے لیے تیار رہنا چاہیے
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جو کام گھروں سے با آسانی ہو سکتا ہے اسے گھر سے ہی کرنا چاہیے جبکہ اسکولز اور نرسریاں کھلنی چاہئیں کیونکہ جوان لوگوں میں کورونا کی علامات کم ہوتی ہیں، اگر اسکولزاور نرسریاں بند ہوں تو والدین کام نہیں کر سکتے۔
جو کمپنیاں طبی سہولیات کی مصنوعات بنا رہی تھیں انہیں بھی جلد ازجلد کھلنا چاہیے جبکہ ڈسکوز اور کلبس بالکل بند رہنے چاہیے اور بڑی تعداد میں شرکاء والی تقریبات کا انعقاد بھی نہیں ہونی چاہیے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ مختلف علاقوں میں مختلف معیار سیٹ کیے جا سکتے ہیں۔ پابندیاں اس جگہ پر نرم کی جا سکتی ہین جہاں کورونا وبا کی شرح کم ہو۔
تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ کورونا کے ٹیسٹ بڑے پیمانے پر کیے جائیں اور صفائی کے لیے جامع تربیت جبکہ پرسنل پروکیٹو ایکوپمنٹ کے لیے نئے قوانین متعارف کروانے کی ضرورت ہوگی۔
ماہرین یہ بھی ریکمنڈ کرتے ہیں کہ جرمنی حفاظتی لباس اور ماسک کی پروڈکشن میں بڑی تعداد میں اضافہ کیا جائے جبکہ دوائی اور ویکسین کی پروڈکشن کی گنجائش بھی بڑھانی چاہیے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پلیت فارم کو اسٹیبلیش کیا جائے جس پر سٹریٹیجک پلاننگ کی جائے۔ اور جب تک ٹاسک فورس اپنی سفارشات تیار کرے سیاستدان اور کاروباری طبقات پابندیاں اٹھانے کے لیے حتمی کام کریں۔