دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی اس وقت کورونا جیسی وبا کے سنگین مسئلے سے دوچار ہے۔ میڈیا اور عوام کا فوکس بھی یہی مسئلہ ہے تاہم اس دوران آٹا اور چینی کی تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پر آنے کے بعد ملک میں بھونچال کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے اور آٹا اور چینی کی ملک میں مصنوعی قلت کی وجہ سے حکومت کو عوام اور میڈیا کی طرف سے شدید دباؤکا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس سے قبل اپوزیشن اور میڈیا نے وزیراعظم کے اہم ساتھیوں کو اس بحران کا ذمہ دار قرار دیا لیکن حکومتی ارکان ان لوگوں کا دفاع کرتے رہے تاہم بعد ازاں حکومت نے ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء کی سربراہی میں تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں جہانگیر ترین، خسروؔ بختیار اور عثمان بزدار سمیت دیگر اہم سیاستدانوں پر اس بحران کی ذمہ داری ڈال دی۔
پاکستان میں شوگر اور آٹا مافیا کی طرف سے عوام کی جیبوں پر اربوں روپے کا ڈاکا کئی دہائیوں سے جاری ہے، شوگر مافیا کے ارکان ہر حکومت کا حصہ رہے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرتے رہے، شوگر مل مالکان میں پاکستان کے سابق حکمران نواز شریف، آصف زرداری اور موجودہ حکومت میں موجود جہانگیر ترین، خسرو بختیار اور فہمیدہ مرزا جیسے بڑے نام شامل ہیں۔
ان لوگوں نے اقتدار میں رہ کر کاشتکار کا استحصال کیا، ڈپٹی کمشنر اور پولیس کی مدد سے علاقے میں دفعہ 144 لگا کر گنے کی خریداری کی اور سیس ٹیکس کی مد میں کاشتکاروں سے لیا جانے والا کروڑوں روپیہ بھی ہضم کر گئے۔
کاشتکار سے دو لاکھ ٹن گنا لے کر صرف سوا لاکھ ٹن کے پیسے ادا کیے جاتے اور ادائیگیاں بھی ذلیل کر کے کی جاتی تھیں، اس شوگر مافیا نے اپنے مفاد کی خاطر کپاس اور دیگر زرعی اجناس والی فصلیں اگانے والی زمینوں کو گنے کی پیدوار کے لیے مختص کر کے پاکستان کی زراعت کا بیڑہ غرق کر دیا۔
آصف علی زرداری کے دور میں اس وقت کے سیکرٹری خزانہ واجد رانا نے شوگر مافیا کو ایکسپورٹ کے نام پر سبسڈی دینے کی مخالفت کی تھی، ان کے مطابق شوگر ایکسپورٹ کے معاملے پر نہ ہی وفاقی اور نہ ہی صوبائی حکومت سبسڈی دے سکتی ہے، اس کے بعد سندھ کی صوبائی حکومت نے آرڈیننس پاس کر کے اومنی گروپ کی شوگر ملوں کو سبسڈی دی، اس کے نتیجے میں آج مراد علی شاہ نیب میں کیس بھگت رہے ہیں تو عثمان بزدار کس طرح سبسڈی دینے کے کیس میں بچ سکتے ہیں۔
سندھ نے سبسڈی کے لیے آرڈیننس کا سہارا لیا تھا لیکن عثمان بزدار تو اس تکلف میں ہی نہیں پڑے اور مونس الہی، جہانگیر ترین اور ہاشم بخت جوان کی ملوں کو اربوں روپے کی سبسڈی ایکسپورٹ کے نام پر دے دی، اب تو یہ فرانزک آڈٹ میں آئے گا کہ ایکسپورٹ کے لیے کہاں ایل سی کھلی اور زر مبادلہ اس چینی کی ایکسپورٹ سے کیسے آیا۔
رپورٹ کے مطابق جب ان کو سبسڈی دے جا رہی تھی تو چھ ماہ میں چینی کی قیمت میں 12 روپے کا اضافہ کر کے عوام کی جیبوں پر اربوں روپے کا ڈاکہ ڈالا گیا، چینی مہنگی کرنے کی کوئی وجوہات نہیں تھیں، ملک میں گنے کی ڈیمانڈ اور سپلائی کا بھی مسئلہ نہیں تھا اور نہ ہی حکومت نے کوئی نیا ٹیکس لگایا تھا لیکن اس کے باوجود بلاوجہ چینی مہنگی کر کے اربوں روپے کمائے
شوگر مل مالکان نے چینی کی تیاری کے دوران نکلنے والے پھوک کو بھی گتے بنانے والے فیکٹریوں اور بجلی کے کارخانوں کو فروخت کر دیا لیکن اس پر بھی کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا بلکہ شوگر مل مالکان اس پھوک سے چلنے والے بجلی گھر بنا کر کروڑوں کما رہے ہیں۔
آٹے کی قلت پر تحقیقاتی رپورٹ میں عثمان بزدار پر کسی حد تک ذمہ داری عائد ہوتی ہے، رپورٹ کے مطابق انہوں نے ایک سال میں چار فوڈ سیکرٹریز کے بغیر کسی وجہ کے تبادلے کیے، جب ان سے اس حوالے سے سوال کیا گیا تو وہ کوئی تسلی بخش جواب ٹیم کو نہ دے سکے، رپورٹ کے مطابق فوڈ سیکرٹری کو پوچھے بغیر 38 کے قریب ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر کے تبادلے سیاسی بنیادوں پر کیے گئے، ایک گریڈ 17 کے ایجوکیشن افسر کو ڈپٹی ڈائرکٹر فوڈ لگایا گیا۔
کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ شعبہ تعلیم کے ایک شخص کو کس بیناد پر محکمہ فوڈ پر تعینات کیا گیا، عثمان بزدار کی اس نااہلی کی وجہ سے گندم کی خریداری میں دیر ہوئی اور ملک میں گندم کا بحران شروع ہوا۔ میرے خیال میں اس بحران کے بعد چیئرمین پاسکو اور اس وقت کے وفاقی وزیر محبوب سلطان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیئے، تحقیقاتی رپورٹ مکمل آنے کے وزیراعظم عمران خان صاحب کو یہ پتھر دبانے کی بجائے چومنا چاہے اور اس میں ملوث تمام لوگوں پر مقدمات چلا کر سزائیں دلانی چاہئیں۔
ایوب خان، یحیٰ خان سے لے کر نواز شریف کے آخری دور اقتدار تک کوئی بھی شوگر مافیا کو سزا نہیں دے سکا۔ اب عمران خان کا کڑا امتحان ہے کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کر کے کوئی نئی مثال قائم کریں۔ اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان کی حکومت سے نالاں عوام اس مافیا کے منطقی انجام کے بعد عمران خان سے پہلے جیسی محبت کرنے لگ جائیں گے اور عمران خان کے پاس یہی بہترین وقت ہے کہ جرات کا مظاہرہ کریں اور چینی اور آٹا چوروں کو نشان عبرت بنائیں ورنہ عوام کے سامنے کل کس منہ سے ووٹ مانگنے جائیں گے۔ ابھی عمران خان نے صرف فیلڈنگ بدلی ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
وزیر اعظم عمران خان لگے ہاتھوں قرض معافی والوں کی بھی رپورٹ منگوا لیں۔ ان کی اتحادی فہمیدہ مرزا کی مرزا شوگر ملز نے 84کروڑ روپے قرض معاف کرایا ہے۔ کئی بڑے بڑے سیاستدانوں اور پردہ نشینوں کے نام بھی سامنے آئیں گے۔ مشکل کی اس گھڑی میں پیسہ وصول کر کے غریبوں کی مدد کی جا سکتی ہے۔ یہ دو کام ہی عمران خان کا کھویا ہوا معیار اور وقار دوبارہ بحال کر سکتے ہیں۔