تین برطانوی نرسوں نے چند ہفتے قبل ایک تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی تھی جس میں انہوں نے طبی فضلے والے تھیلے اوڑھے ہوئے تھے۔
ہیرو کے نارتھ وک پارک اسپتال میں کام کرنے والی ان نرسوں نے تصویر کے ساتھ اپیل کی تھی کہ ان کے پاس مناسب ماسکس، گاؤنز اور دستانوں کی کمی ہے اور انہیں یہ حفاظتی سامان فراہم کیا جائے۔
اب ان تینوں نرسوں کا کورونا کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے، اس اسپتال میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں کام کرنے والے طبی عملہ کے آدھے لوگ اس وائرس کا شکار ہو گئے ہیں۔
برطانیہ میں کورونا سے مرنے والوں میں ایشیائی اور افریقی زیادہ کیوں ہیں؟
قربانی اور ایثار کی دیوی، برطانوی نرس اریمہ نسرین جان کی بازی ہار گئیں
کورونا وبا کے خلاف جنگ میں اٹلی کے 100 سے زائد ڈاکٹرز جان کی بازی ہار گئے
تینوں نرسوں نے مارچ میں ٹیلی گراف سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ چونکہ ان کے پاس حفاظتی سازوسامان موجود نہیں ہے اس لیے انہوں نے اسپتال کا فضلہ جمع کرنے کے مہیا کیے گئے پلاسٹک کے تھیلوں کو لپیٹا ہوا ہے۔
ایک نرس کا کہنا تھا کہ بہت سے نوجوان لوگ وینٹی لیٹرز پر ہیں جنہیں دمہ یا شوگر کی بیماری لاحق ہے، وہ مسلسل کھانستے ہی رہتے ہیں لیکن ہم ان کے لیے سوائے سانس لینے میں مدد دینے کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔
اس نے دکھی لہجے میں بتایا کہ بعض اوقات ان کا جسم شکست تسلیم کر لیتا ہے اور وہ مر جاتے ہیں، ہم نہ ہی انہیں بچا پاتے ہیں اور نہ ان کے رشتہ داروں کو انہیں آخری بار گڈ بائی کہنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔
برس نے بتایا کہ ہم باہر سے بہادر نظر آنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر اندر سے ہم سب انتہائی خوفزدہ ہیں۔
برطانیہ کے آن لائن جریدے میٹرو کے مطابق اسپتال نے ایمرجنسی کی صورتحال کا اعلان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کے کریٹیکل کیئر بیڈز مریضوں سے بھر چکے ہیں اور مزید کی گنجائش باقی نہیں ہے۔
ہیلتھ سیکرٹری میٹ ہنکاک کا کہنا ہے کہ اسپتالوں کے صرف 5.7 فیصد ڈاکٹرز کوویڈ 19 سے متاثر ہوئے ہیں مگر ایک حالیہ سروے میں رائل کالج فزیشنز نے بتایا ہے کہ یہ اعدادوشمار 14.6 فیصد تک ہو سکتے ہیں۔
رائل کالج آف نرسنگ کے چیف ایگزیکٹو ڈیم ڈونا کینائر کا کہنا ہے کہ نرسوں کو زبردستی ایک دوسرے کے ساتھ حفاظتی لباس شیئر کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
