عالمی بینک نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث جنوبی ایشیاء گزشتہ چالیس سال کی بدترین معاشی کارکردگی کے راستے پر گامزن ہے۔
عالمی بینک نے یہ بات ایک رپورٹ میں بتائی ہے جس کے مطابق پاکستان، افغانستان اور مالدیپ کے کسادبازاری کا شکار ہونے کا خدشہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان پہلے ہی کئی برسوں میں کمترین شرح نمو کا سامنا کر رہا ہے، آبادی کی شرح میں 1.8 فیصد اضافے کے باعث یہاں فی کس آمدنی میں تکلیف دہ حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔
کورونا وائرس سے پاکستانی معیشت کو اربوں ڈالرز نقصانات کا خدشہ
پاکستان کو برآمدات کے شعبہ میں 2 ارب ڈالرز کے نقصان کا خدشہ
کیا کورونا وبا سرمایہ دارانہ نظام کیلئے خطرہ ہے؟
بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک کی آبادی 1.8 ارب افراد پر مشتمل ہے، ان ممالک میں ابھی تک کورونا کے مریضوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے تاہم ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ یہ اس وبا کے نئے مراکز بن سکتے ہیں۔
عالمی بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں سیاحت ختم ہو چکی ہے، سپلائی کی روانی میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں، گارمنٹس کی طلب بہت کم ہو چکی ہے اور صارفین اور سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں کمی آ چکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق مالدیپ سب سے زیادہ متاثر ہو سکتا ہے جہاں سیاحت کے خاتمے کے باعث مجموعی ملکی پیداوار میں 13 فیصد کمی واقع ہو سکتی ہے، افغانستان 5.9 فیصد جبکہ پاکستان میں یہ کمی 2.2 فیصد تک جا سکتی ہے۔
ورلڈ بینک نے رپورٹ میں پیشگوئی کی ہے کہ آٹھ ممالک پر مشتمل اس خطے کی مجموعی معاشی شرح نمو 1.8 فیصد سے 2.8 فیصد تک رہنے کا امکان ہے، چھ ماہ قبل یہ شرح 6.3 فیصد بتائی گئی تھی۔
یکم اپریل سے شروع ہونے والے مالی سال کے دوران بھارت کی معیشت میں 1.5 فیصد سے 2.8 فیصد تک بڑھوتری کا امکان ہے جبکہ 31 مارچ کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران یہ شرح 4.8 فیصد سے 5 فیصد تک رہے گی۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ سپلائی میں رکاوٹیں آنے کے باعث پاکستان میں گندم کی قیمت میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے، موجودہ صورتحال میں اشیائے خورونوش میں اضافے کا خطرہ ہے۔
بھارت کی ایک ارب تیس کروڑ آبادی لاک ڈاؤن کا شکار ہے جس کے باعث لاکھوں لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں، چھوٹے بڑے کاروبار متاثر ہوئے ہیں اور شہروں میں کام کرنے والوں کی بڑے پیمانے پر گاؤں کی طرف ہجرت ہوئی ہے۔
عالمی بینک نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ لاک ڈاؤن وسیع ہوا تو بدترین صورتحال پیدا ہوسکتی ہے جس کے باعث پورا خطہ معاشی طور پر متاثر ہو گا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قلیل المدت معاشی تکلیف کو کم کرنے کے لیے حکومتوں کو بیروزگار افراد کے لیے مالی امداد اور کاروباری افراد اور اداروں کو قرض میں ریلیف دینا ضروری ہے۔
بھارت نے اب تک 23 ارب ڈالر کا معاشی پلان منظور کیا ہے جس کے ذریعے لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والے لاکھوں افراد کو نقد رقم دی جائے گی، پاکستان نے بھی 8 ارب ڈالر کے پیکج کا اعلان کیا ہے۔
عالمی بینک کے حکام نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا کی حکومتوں کو وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے ساتھ ساتھ غریب افراد کا تحفظ بھی کرنا ہے۔
