سپریم کورٹ نے پنجاب، سندھ اور وفاقی حکومت سے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر مفصل مشتمل رپورٹ طلب کر لی۔ سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کی جانب سے بین الصوبائی مشروط سفری پابندی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے مزید احکامات دیے ہیں کہ صف اول میں فرائض سر انجام دینے والے ڈاکٹروں کو ضروری حفاظتی آلات فراہم کیے جائیں، جہاں خوراک کی کمی کا مسئلہ ہو اسے فوراً حل کیا جائے، صفائی کے عملے کو حفاظتی لباس اور دستانے فراہم کیے جائیں
سماعت کا احوال
کورونا وبا سے بچاؤ کے لیے حکومتی اقدامات پر سو موٹو کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے حکومت کی کارکردگی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا گیا، وزراء اور مشیروں کی فوج در فوج ہے مگر کام کچھ بھی نہیں، مشیروں کو وفاقی وزراء کا درجہ دے دیا گیا اور مبینہ طور پر کرپٹ لوگوں کو مشیر رکھا گیا۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے ایسے ریمارکس نہ دینے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے مبینہ طور پر ان کو کرپٹ کہا ہے، کابینہ میں حالیہ ردوبدل پر چیف جسٹس نے نام لیے بغیر ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم کابینہ میں مہرے بدل رہے ہیں ایک مہرہ اٹھا کر دوسرے مہرے میں رکھ دیا جاتا ہے، اتنی بڑی کابینہ کی ضرورت نہیں دس افراد کافی ہیں، کرپٹ لوگوں کی نشاندہی کی جائے، ہمارا وزیر اعظم عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کی واپسی کیلئے وقت مانگ رہا ہے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر اعظم نے صرف قرضوں کی بات نہیں کی اور بھی معاملات اٹھائے۔ ہماری انڈسٹری پوری طرح بیٹھ چکی ہے، گزشتہ تیس سال سے انڈسٹری پر توجہ نہیں دی گئی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی کار کردگی پر بھی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں، آج انہیں ہٹانے کا حکم دیں گے۔ تاہم اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس موقع پر انہیں ہٹانا بڑا تباہ کن ہوگا، آدھی فلائٹ میں ظفر مرزا کو نہ ہٹائیں، عدالت ان کا معاملہ حکومت پر چھوڑ دے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی ریمارکس کیوجہ سے اثر پڑتا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اپ کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کر رہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ظفر مرزا کے خلاف کس معاملے کی تحقیقات جاری ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک شھری نے ایف آئی اے میں درخواست دی تھی کہ انہوں نےمیڈیکل سامان بغیر ڈیوٹی چین بھجوایا اس معاملے پر انکوائری جاری ہے۔
انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ ظفر مرزا نے جو بھی کیا حکومت کی اجازت سے کیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر کام حکومت کی اجازت سے کرتے ہیں، پہلے آپ نے حکومت کی اجازت سے آٹا بھیجا، پھر آپ نے حکومت کی اجازت سے چینی باہر بھیجی، پھر اب آپ میڈیکل آلات حکومت کی اجازت سے امپورٹ کرینگے، ملک کی صنعتیں بند ہوگئی ہیں حکومت کو اس کا ادراک نہیں، ہااکس بے پر ہزاروں گودام بنے ہوئے ہیں، کبھی ھم مینو فیکچرنگ والے ممالک میں شامل ہوتے تھے، آج ہمارا وزیر اعظم خود کہہ رہا ہے کہ جو قرضہ لیا ہے اس کی واپسی میں رعایت کی جائے، موجودہ وزرا اور مشیران کی موجودگی میں ترقی ہو سکتی ہے؟
چیف جسٹس نے گزشتہ فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کے کہ ہم نے حکم دیا تھا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرے، پوری دنیا میں پارلیمنٹ کام کر رہی ہیں، عدالت کے سابقہ حکم میں اٹھائے گئے سوالات کے جواب آئے اور نہ ہی ظفر مرزا نے عدالتی ہدایات پر عمل کیا۔
چیف جسٹس کورنا وبا کے دوران حکومتی اقدامات پر سوموٹو کیس سننے والے پانچ رکنی لارجر بینچ کی سربراہی کر رہے ہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس قاضی امین نے کہا کہ عدالت چاہتی ہے کہ معاملات حل ہوں، ہم بریفنگ میں کہہ چکے تھے کہ ہم مداخلت نہیں کررہے، کہاں گیا سماجی فاصلہ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت اس پر کام کررہی ہے، 22 کروڑ کا ملک ہے، سماجی فاصلہ فوج یا قانون نافز کرنے والے اداروں کے ذریعے ممکن نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا مقصد آرٹیکل 9 کا اطلاق ہے، جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ہمیں اجتماعی طور پر سوچنا ہوگا، عوام تلملا رہی ہے اور بھوک سے مر رہی ہے، حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا جو ابھی تک نظر نہیں آ رہا، صدر مملکت کو چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائیں، اس طرح کے معاملات میں پارلیمنٹ ہی عوام کی امید ہوتی ہے، اگر ہم نے ادراک نہ کیا تو کورونا وائرس ہمارے سیاسی نظام کی دھجیاں بکھیر دے گا، ایک پارٹی دوسری پارٹی کے خلاف پریس کانفرنس کر رہی ہے، سب کو مل جل کر چلنا ہوگا۔
پارلیمنٹ کے اجلاس کے حوالے سے اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس بارے میں تو پارلیمنٹ ہی طے کرے گی، حکومت قانون سازی کے مراحل میں ہے۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومتیں کچھ اور کر رہی ہیں، مرکز کچھ اور کام کر رہا ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ ایسا آٹھارویں ترمیم کی وجہ سے ہو رہا ہے، اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو اختیار دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سکھر، تھرپارکر اور حیدرآباد میں لوگ رو رے ہیں، امداد لینے کیلئے لوگ جڑ جڑ کر کھڑے ہوتے ہیں، سماجی فاصلوں کا کام تو ایک طرف رہ گیا ہے، حکومت نے جو علاقے بند کیے ہیں کیا وہاں کا ڈیٹا جمع کیا ہے، کیا ان لوگوں کو راشن پہنچایا یے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ میں لوگ چیخ رہے ہیں، لائینز ایریا میں جو کچھ ہوا سںب کے سامنے ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت اپنا کام کررہی یے۔ حکومت لوگوں کو صرف ہدایات دے سکتی ہے، عمل کرنا لوگوں کا کام ہے۔ لوگ اگر حکومتی احکامات نہیں مانتے تو حکومت کیا کرے جس پر جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ اگر حکومت قانون نافذ نہیں کرا سکتی تو پھر ہتھیار ڈال دے۔ لاک ڈاؤن کے نام پر ایک غریب آرمی کو سڑک پر مارا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف جنازے میں تمام لوگ پہلی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سندھ حکومت کے پاس کرنے کو کچھ نہیں، آٹھ ملین روپے سندھ میں راشن کی تقسیم کیلئے خرچ کیے، نہیں معلوم کدھر خرچ ہوئے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ راشن کس نے تقسیم کیا ہے؟ پولیس والے جے ڈی سی والوں کو لوٹ رہے ہیں، اگر حکومت دس روپے کی چیز بھی دیتی ہے تو چار منسٹر تصویر بنوانے کیلئے کھڑے ہو جاتے ہیں، ایک ڈاکٹر کو پوری کٹ دینی چاہیے نہ کہ صرف ایک ماسک دیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سیکریٹری ہیلتھ کو حفاظتی تدابیر کے حوالے سے معلوم ہی نہیں ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ پانچ ہزار کٹس روزانہ کی بنیاد پر ملنا شروع ہو جائیں گی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سندھ کی آبادی کے لحاظ سے 5 ہزار کٹس کافی ہیں؟
بینچ میں موجود جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آئینی حق تک سن رہے ہیں، ڈاکٹرز علیحدہ پریشان ہیں، ٹیسٹنگ اور سماجی فاصلے کے بارے میں آگاہی نہیں ہے، ڈاکٹرز اور فیلڈ ورکرز کا تحفظ ہماری پہلی ترجیح ہونا چاہیے، ملک کی قیادت کا موجودہ حالات میں امتحان ہے۔ انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ لیڈر شپ کا فقدان ہے اس لیے ہم نے کہا کہ گائیڈ لائنز چاہیے صوبائی حکومتیں وفاقی حکومتوں کے تعاون کے بغیر کام نہیں کر سکتیں، ہمیں ایسے حالات میں لیڈر شپ کی ضرورت ہے، قومی اتحاد و یگانگت کی کمی ہے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ میدان جنگ میں بھی ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف ساتھ کھڑا ہوتا ہے، ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف اپنی جان تک دے دیتے ہیں، حکومت اور تمام اداروں کی اپنی کچھ حدود ہوتی ہیں، اگر ہر آدمی کھڑا ہو جائے کہ مجھے حفاظتی سامان ملے گا تو کام کروں گا تو حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عام آدمی کو نہیں معلوم کہ کس طرح کورونا وائرس سے بچنا ہے، جو بھی سہولیات موجود ہیں ڈاکٹر ان میں کام جاری رکھیں، بڑی مایوس ہوتی ہے جب نوجوان ڈاکٹرز ہڑتال کرتے ہیں۔
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹرز حلف لیتے ہیں کہ مریضوں کی جان بچانے کیلئے اپنی جان دے دیں گے۔ دوران سماعت ایڈوکیٹ امان اللہ کنرانی نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے بین الصوبائی نقل و حمل پر پابندی عائد کر دی ہے جسکی تصدیق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بھی کی۔ عدالت نے پنجاب حکومت کا یہ فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ آئین کے آرٹیکل 15 کی خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے مختصر فیصلے میں کہا کہ اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے موثر اقدامات اٹھائے جائیں گے اور کوشش کی جائے گی کہ کم سے کم لوگ اس وائرس سے متاثر ہوں جبکہ یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ صحت کے ساتھ ساتھ سوشل سیکٹر پر بھی توجہ دی جائے گی۔
عدالت نے مختصر فیصلے میں کہا کہ یقین دہانی کرائی گئی کہ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے ہر ممکن کوشش کی جائے گی، اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ وزیراعظم کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے آج اعلیٰ سطحی اجلاس کر رہے ہیں، وزیراعظم تمام صوبوں کے چیف سیکریٹریز کے ساتھ اجلاس میں موثر حکمت عملی طے کریں گے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے صوبے میں اسپتالوں کی حالت زار اور کورونا سے متعلق اٹھائے گئے اقدامات سے آگاہ کیا، کراچی سیل کرنے سے متعلق موقف اختیار کیا گیا کہ کورونا کے پھیلاؤ کی وجہ سے ایسا کیا گیا، یونین کونسل کو سیل کرنے کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا گیا۔
عدالت نے پوچھا کہ جب یونین کونسلز بند ہو جائیں گی تو سامان لوگوں تک کیسے پہنچے گا، جواب میں بتایا گیا کہ یونین کونسل میں گراسری کی دکانیں کھلی ہو گی، جب پوچھا گیا وہ غریب جس کے پاس پیسے نہیں گراسری نہیں خرید سکتا اس کیلئے کیا کیا تو بتایا گیا کہ اس کیلئے راشن اور دیگر اقدامات کیے جائیں گے۔
عدالت نے کہا کہ حکومت سندھ 80 ملین روپے راشن پر خرچ کی گئی رقم کی تفصیلات نہ دے سکی۔ عدالت نے سندھ حکومت سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ خیبرپختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان میں کورونا وائرس کا زیادہ خطرہ نہیں ہے جبکہ پنجاب، سندھ اور اسلام آباد کی صورتحال الگ ہے۔
