دنیا بھر میں ایپس بنانے والی کمپنیاں اس دوڑ میں شامل ہیں کہ نگرانی کا کوئی ایسا نظام بنایا جائے جس سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو ٹریس کر کے اسے روکا جائے۔
اس عمل کو کانٹیکٹ ٹریسنگ کہا جاتا ہے جسے وبا کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
رائٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق اس عمل میں گزشتہ ہفتہ سے تیزی دیکھنے میں آئی جب گوگل اور ایپل کمپنی نے اعلان کیا کہ وہ ایسی ایپس پر کام رہی ہیں جس سے ایسے لوگوں کی شناخت کی جا سکے جو کورنا کے مریضوں سے رابطے میں رہے۔
اسمارٹ فون اب کورونا وائرس سے بھی بچائے گا، اہم پیش رفت سامنے آ گئی
کورونا وبا کے دوران پاکستانیوں نے گوگل پر کیا سرچ کیا؟
سمارٹ فونز اور کچھ دیگر فونز کی لوکیشن کا ٹریک ریکارڈ موبائل ٹاور سگنلز، وائی فائی سگنلز اور جی پی ایس کے ذریعے لے کر اسے محفوظ رکھا جاتا ہے۔
رائٹرز کے مطابق اپنے گھروں میں رہنے کے احکامات کی پیروی کے لیے نگرانی کی غرض سے لوکیشن کی معلومات مددگار ثابت ہو سکتی ہیں جبکہ یہی معلومات کانٹیکٹ ٹریسنگ کے لیے بھی مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔
ان کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے کہ آیا لوگ کورونا سے متاثرہ افراد سے رابطے میں رہے یا نہیں تاکہ انکا بھی ٹیسٹ کیا جا سکے یا انہیں الگ تھلگ رکھا جا سکے۔
سمارٹ فونز ہی کو میسجز کے ذریعے سروے کر کے لوگوں کی صحت کی معلومات کا ریکارڈ اکٹھا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ لوکیشن کی معلومات اور صحت کے حوالے سے مختلف اقسام کا ڈیٹا مدنظر رکھ کر ہیلتھ سکور تک بتایا جا سکتا ہے۔
بلوٹوتھ سے سمارٹ فونز اپنے قریب تر فونز سے کنینٹ ہو سکتے ہیں۔ اگرایسا شخص وبا کا شکار ہوتا ہے تو اسکے قریب ترین فونز استعمال کرنے والے صارفین کی فہرست پہلے ہی سے متاثرہ شخص کے فون میں تیار پڑی ہوتی ہے جنہیں پش نوٹیفیکیشن کے ذریعے ٹیسٹ کرانے یا خود کو الگ کرنے کے بارے میں آگاہ کیا جا سکتا ہے۔
کانٹیکٹ ٹریسینگ کا عمل اس حوالے سے ایسے مشکل طریقوں سے کہیں زیادہ موثر ہے جن میں زیادہ افرادی قوت درکار ہوتی ہے۔
اس حوالے سے بلوٹوتھ بہت زیادہ کارگر ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ فونز ایک دوسرے کے ساتھ 15 فٹ کے فاصلے کی دوری پر بھی جڑے ہوتے ہیں، حتیٰ کہ دیوار کے اس پار بھی کام کرتے ہیں۔
کورونا سے متاثرہ شخص کی کھانسی بھی اتنے فاصلے پر دوسروں کے لیے مسائل پیدا نہیں کر سکتی اس لیے ایپس تیار کرنے والے فونز کو ایک دوسرے سے بلوٹوتھ کے ذریعے کنیکٹ کرنے والی لہروں کی مضبوطی اور فاصلے کی بنیاد پر روابط کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
بلوٹوتھ فون ٹاور یا جی پی ایس سے زیادہ بہتر انداز میں لوکیشن بتا سکتا ہے کیونکہ جی پی ایس اور ٹاورز مصروف شہر میں بھیڑ کو روابط کے طور پر ظاہر کرتے ہیں۔
سنگاپور میں کانٹیکٹ ٹریسنگ کے عمل کو بلوٹوتھ کے ساتھ ٹریس ٹوگیدر نامی ایپ کے ساتھ آگے بڑھایا گیا۔
اسرائیل میں دی شیلڈ نامی ایپ سے کورونا وبا سے متاثرہ افراد کے روابط کی نگرانی کی جا رہی ہے، بھارت میں بھی ایپ کے زریعے کانٹیکٹ ٹریسنگ کا عمل جاری ہے۔
ساؤتھ کوریا موبائل فون لوکیشن کے ڈیٹا کے ذریعے کانٹیکٹ ٹریسنگ کررہا ہے جبکہ تائیوان میں قرنطینہ کی نگرانی اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے کی جا رہی ہے اور اس حوالے سے موبایل ایپ بھی بنائی جا رہی ہے۔ چین میں ٹریکنگ سسٹمز کے لیے بھی ایپ کا استعمال شروع ہو چکا ہے۔
اسی دوران دنیا بھر میں درجنوں ڈویلپرز کانٹیکٹ ٹریسنگ کے لیے ایپ بنانے کی کوششوں میں مگن ہیں جن میں سے کئی حکومتی سطح پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یورپ میں جرمنی ایسی ایپ بنانے کی کوشش کر رہا ہے جس سے 27 دیگر رکن ممالک کو کانٹیکٹ ٹریسنگ میں فائدہ ہو مگر یورپ میں دیگر ممالک بھی اپنے تئیں ایسی ایپس بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ برطانیہ میں بھی اس حوالے سے کام ہو رہا ہے۔
امریکہ میں ہلاکتوں کی بڑی تعداد کے باوجود ابھی اس قسم کے کام کو فروغ دینا باقی ہے۔ دو جامعات کے تحقیقی گروپس حکومت اور مقامی انتظامیہ سے اجازت لینے کی کوششوں میں ہیں۔
ایپل اور گوگل کمپنیوں نے مئی میں ایسے ٹولز متعارف کرانے پر آمادگی ظاہر کی ہے جس سے ایپس کے ذریعے موبائل فونز ایک دوسرے سے کنیکٹ ہو سکیں گے۔
ان دونوں کمپنیوں کا یہ منصوبہ بھی ہے کہ اس سال کے آخر میں لاگنگ کی فعالیت کو براہ راست دنیا بھر میں اپنے فونز کے سافٹ ویئزر میں مربوط کیا جائے۔
وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کو پھر بھی ایپ ڈاؤنلوڈ کرنے کی ضرورت پڑے گی تاکہ کانٹیکٹ نوٹیفیکیشز کا آغاز ہو لیکن جنہوں نے ایپس ڈاؤنلوڈ نہیں کی ہونگی وہ نوٹیفیکیشنز موصول کر سکیں گے۔
ایپس کے ذریعے کانٹیکٹ کے حوالے سے ایک حساس پہلو پرائیویسی اور سیکورٹی کا بھی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ حساس معاملہ یہ ہو گا کہ کس کو فونز میں کنیکٹ کیے گئے ڈیوائسز کی فہرست دیکھنے کی اجازت ہوگی۔