• Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
پیر, ستمبر 22, 2025
  • Login
No Result
View All Result
NEWSLETTER
Rauf Klasra
  • Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
  • Home
  • تازہ ترین
  • پاکستان
  • انتخاب
  • دنیا
  • کورونا وائرس
  • کھیل
  • ٹیکنالوجی
  • معیشت
  • انٹرٹینمنٹ
No Result
View All Result
Rauf Klasra
No Result
View All Result
Home تازہ ترین

ماں ! مجھے گلے سے لگا لو پلیز، 61 سالہ ڈاکٹر ماں جو بیٹی کی خواہش پوری نہ کرسکی

by sohail
اپریل 16, 2020
in تازہ ترین, دنیا, کورونا وائرس
0
ماں ! مجھے گلے سے لگا لو پلیز، 61 سالہ ڈاکٹر ماں جو بیٹی کی خواہش پوری نہ کرسکی

فوٹو کریڈٹ : نیویارک ٹائمز

0
SHARES
0
VIEWS
Share on FacebookShare on Twitter

اسپتال کے بیڈ پر لیٹی مادھوی ایا جان چکی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے، وہ انڈیا میں ڈاکٹر تھیں اور جب وہ امریکہ منتقل ہوئیں تو پریکٹس کے بعد فزیشن اسسٹنٹ بن گئیں۔

انہوں نے ووڈ ہل میڈیکل سنٹر بروکلین میں کئی سالوں تک خدمات سر انجام دیں جہاں انہوں نے اب کورونا وائرس کو تیزی کے ساتھ نیویارک کے گلی کوچوں میں پھیلتا دیکھا۔

اسپتال کی ایمرجنسی میں کام کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ مادھوی خود اب مریضہ بن چکیں، ایا ووڈ ہل سنٹر کی ایمرجنسی میں مریضوں کی ہسٹری دیکھنے، ٹیسٹ کرانے اور ان کی علامات کا معلوم کرتے کرتے خود کورونا وباء سے ٹکرا گئیں۔

کورونا وبا کے خلاف جنگ میں اٹلی کے 100 سے زائد ڈاکٹرز جان کی بازی ہار گئے

کورونا وائرس کا علاج کرنے والے برطانوی ڈاکٹر کی درد بھری داستان

نفیس جذبوں کی داستان: کورونا کا مریض بیٹی سے جھوٹ بولتا رہا

61 سالہ مادھوی اپنے خاوند اور 18 سالہ بیٹی سے دو میل دور ایک اسپتال کے بیڈ پر تنہا لیٹی تھیں کیونکہ فیملی اب انہیں دیکھنے کے لیے نہیں آسکتی تھی، ان کے پاس تسلی کے لیے جاننے والی کولیگز بھی نہ تھیں کیونکہ اسے گھر کے قریب ایک دوسرے اسپتال داخل کیا گیا تھا۔

اپنی فیملی کے ساتھ ٹیکسٹ پر مادھوی نے بتایا کہ سینے میں شدید تکلیف اسے بیڈ سے اٹھنے نہیں دے رہی ۔ ’’مجھے جس طرح صحت یاب ہونا چاہیے تھا میں نہیں ہو پا رہی‘‘ 23 مارچ کو مادھوی کی جانب سے اپنے خاوند کو کیے گئے ٹیکسٹ میں بے بسی کا اظہا رنمایاں تھا۔

جوں جوں بیماری بڑھتی گئی مادھوی کے فیملی کو بھیجے جانیوالے فون پیغامات مختصر اور کم ہوتے گئے۔

18 سالہ منولی نے 25مارچ کو میسج کیا ’ماں ۔ ۔ میں آپ کو بہت یاد کررہی ہوں‘، وہ اپنی ماں کے گلے لگنے اور اس کے ساتھ بیڈ پر لیٹ کر باتیں کرنے کو یاد کررہی تھی۔ منولی نے ماں کو لکھا کہ ’’آپ نے امید ختم نہیں کرنی کیونکہ میں نے ہار نہیں مانی ، مجھے ماں کی ضرورت ہے ، آپ پلیز میرے پاس آجائیں‘‘ ۔

اگلے دن ماں نے اسے جواب میں موبائل پر پیغام لکھا ’’مجھے بھی آپ سے پیار ہے، آپ کی ماں جلد آپ کے پاس ہوگی ‘‘ لیکن افسوس کورونا کے جبڑوں میں جکڑی بے بس ماں اپنی بیٹی سے ملنے کا وعدہ پورا نہ کرسکی ۔

مس مادھوی کی اپنے خاندان کے ساتھ ہونے والی چیٹ سے معلوم ہوا کہ اس نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اپنے شعبہ کے لیے وقف کیے رکھا اور ایک دن وہ خود کورونا جیسی مہلک وباء کا شکار ہوکر جان کی بازی ہارگئی ۔

مادھوی کی گھر پر معمولی علامات اور قرنطینہ سے شروع ہونیوالی بیماری بڑھتی گئی حتیٰ کہ وہ وقت آن پہنچا کہ اسے اسپتال میں تنہائی میں مرنا پڑا ۔

مادھوری کے خاوند نے نمناک آنکھوں کے ساتھ بتایا کہ ہمیں جب بھی ضرورت پڑی ، وہ ہمارے ساتھ کھڑی ہوتی ، لیکن جب وہ بیمار ہوکر بستر مرگ پر تھیں ہم میں سے کوئی بھی اس کے پاس نہ تھا۔

ڈاکٹر مادھوی ایا 1994ء میں انڈیا سے امریکہ منتقل ہوئیں ،2008ء میں انہوں نے ووڈ ہل میڈیکل سنٹر جوائن کیا اور یہاں سینئر فزیشن اسسٹنٹ بن گئیں ۔ اسپتال میں مادھوی کی کولیگز بتاتی ہیں کہ مادھوی نے اپنے بہترین تجربہ کے ذریعے ساتھ کام کرنیوالے نوجوان ساتھی کارکنوں کو بھی سکھایا

نیویارک ٹائمز کے مطابق ان کی موت پر افسوس کرتے ہوئے ووڈہل ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رابرٹ چن کا کہنا تھا کہ ’مادھوی کی جدائی ہم سب کے لیے بہت بڑا نقصان ہے ‘‘ ۔ ڈاکٹر رابرٹ چن نے مادھوی کے خاندان کی مدد کے لیے عطیات کی بھی اپیل کی ہے کیونکہ وہ اپنے کنبہ کی واحد کفیل تھیں۔

ڈاکٹر چن نے بتایا کہ جس ہفتہ مادھوی کی موت ہوئی اس دن ان کے اسپتال کی ایمرجنسی میں کورونا وباء سے متاثرہ 20 مریض وینٹی لیٹر پر تھے ۔

مادھوی ایا کی 18 سالہ بیٹی منولی اپنی والدہ کی جدائی میں شدت غم سے نڈھال ہے، وہ خود بھی ڈاکٹر بننے کا سوچتی ہیں تاہم اپنے ہیلتھ کیئر سسٹم پر ناراض ہے۔

اس کا خیال ہے کہ یہ نظام فرنٹ لائن پر صحت سے متعلقہ ورکرز کو تحفظ فراہم نہیں کررہا ۔ وہ اب بھی کبھی کبھی اپنی والدہ کے گھر نہ آنے پر ناراض ہوجاتی ہیں ۔ منولی خواہش کرتی ہے کہ وہ صرف اپنی ماں کو گلے لگانا چاہتی ہیں اور انہیں بتانا چاہتی ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔

ابھی تک اس بات کا تعین نہیں ہوسکا کہ مادھوی کورونا وائرس کا کس طرح شکار بنیں؟ مارچ کے اوائل میں جب مادھوی ووڈہل میڈیکل سنٹر میں کام کررہی تھیں تو انتظامیہ کی جانب سے کوئی ہدایت نہیں کی گئی تھی کہ تمام مریضوں کو چیک کرنے کیلئے ماسک کا استعمال کیا جائے تاہم 17مارچ کو ووڈ ہل انتظامیہ نے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنیوالوں کو ہدایت کی کہ وہ ہر مریض کو چیک کرتے ہو ئے چہرے پر ماسک پہنیں ۔

وباء کے پھیلاؤ کے ابتدائی دنوں میں مادھوی پریشان تھی کہ ان کی وجہ سے کہیں وائرس گھر میں نہ آجائے کیونکہ ان کے 64سالہ خاوند 2017ء میں بائی پاس کے مرحلے سے گزرے تھے جبکہ 86سالہ بوڑھی ماں مالتی مسرانی ایک سال سے سٹروک کی وجہ سے اپنی بیٹی کی نگہداشت میں تھیں ۔

مادھوی کے خاوند بتاتے ہیں کہ 12مارچ کو مادھوی شفٹ ختم کر کے گھر آئیں تو وہ کھانس رہی تھیں ۔ اگلی شام وہ انہیں چیک اپ کے لیے اسپتال لے کر گئے،وہاں کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد ان کا ٹیسٹ کیا گیا ۔

اگلے چند دن انہیں گھر پر قرنطینہ میں رکھا لیکن دن بد ن انہیں سانس کی تکلیف بڑھتی گئی اور انہیں بخار ہوگیا ۔ 18مارچ کی دوپہر مادھوی کے خاوند اپنی بیوی کو گھر کے قریب جیوش میڈیکل سنٹر چھوڑ آئے جنہیں بعد میں وہ کبھی نہ دیکھ سکے۔

مادھوی کے خاوند اسپتال کی پارکنگ میں ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھے رہے کہ مادھوی کے سینے کے ایکسرے اور دوسری رپورٹس آنے کے بعد وہ انہیں گھر لے جائیں گے ۔

وہ اپنی بیوی کو فون پر ’سویٹ ہارٹ ‘ لکھ کر مخاطب کرتے، جب انہوں نے اپنی سویٹ ہارٹ کو رپورٹس کے بعد گھر چلنے کا میسج کیا تو آگے سے ان کی بیوی نے جواب دیا کہ آپ گھر جائیں میں ابھی انتظار کررہی ہوں۔

مادھوی نے اگلے دن صبح 4 بجکر 47 منٹ پر خاوند کو میسج کیا کہ وہ اب بھی بیڈ کے انتظار میں بیٹھی ہیں۔ جب مادھوی کے خاوند صبح اٹھے تو انہوں نے ان سے گھر سے کافی لانے کا پوچھا لیکن مادھوی کے جواب سے وہ شل ہو کر رہ گئے۔ ’نہیں ۔ ۔ ۔ میرا کورونا ٹیسٹ پازیٹو آیا ہے‘۔

مادھوی نے فون پر بات کرتے ہوئے اپنے خاوند سے کہا کہ میری ماں کا خیال رکھنا اور منولی کو یونیورسٹی سے گھر لے آنا، اگلے دن منولی جب یونیورسٹی سے واپس آئی تو اس کا خیال تھا کہ اُس کی ماں کو نمونیا ہوا ہے اور وہ صحت یاب ہو کر انہیں سرپرائز دیں گی ۔ لیکن جب اُسے معلوم ہوا کہ اس کی ماں کا کورونا ٹیسٹ پازیٹو آیا ہے تو وہ دہل کر رہ گئیں۔

29 مارچ کو مادھوی کی حالت بگڑنے پر انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ، خدشہ تھا زندگی کو خطرہ ہوسکتا ہے لہذا ڈاکٹرز نے مادھوی کے خاوند کو کال کی کہ وہ اپنی بیوی سے آکے مل لیں کہ شاید یہ آخری ملاپ ہو۔

اس دوران مادھوی کے خاوند کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اس کے دل کی حالت پہلے ہی خراب ہے اور اگر اس دوران انہیں کورونا وائرس ہوا تو اس حالت میں ان کی 18 سالہ بیٹی ماں باپ کے بغیر اکیلی رہ جائے گی ۔

اُس نے اس حالت میں جب اسپتال نہ جانے کا فیصلہ کیا تو دل رو رہا تھا، اسی دوپہر ہی اسپتال سے خبر آئی کہ مادھوی چل بسی ہیں ۔

اس غم کی گھڑی میں بھی منولی، اس کے والد اور دادی ایک دوسرے کے گلے لگ کر ماں کی جدائی کا ماتم نہ کرسکے کیونکہ انہیں 6 فٹ دور رہنا تھا۔

ماں کے فوت ہوجانے کے بعد اب بھی منولی انہیں فون پر پیغامات بھیجتی ہیں، رات سونے کیلئے بیڈ روم جانے سے قبل اس نے ماں کو پیغام بھیجا ’’آئی مس یو موم‘‘۔

اگلی صبح جب وہ بیدار ہوئی تو اس نے ماں کو پیغام بھیجا ’میرے خواب میں آنے کا بہت شکریہ ماں ‘ ۔ منولی کے والد اس کی والدہ کے گزر جانے کے بعد اس کی ذہنی حالت کے حوالے سے کسی ذہنی بیماری سے متعلقہ ڈاکٹر سے اُس کا علاج چاہتے ہیں لیکن وہ اس بات کیلئے بھی فکر مند ہیں کہ ان کا یہ علاج کتنا عرصہ چلے گا کیونکہ مادھوی کے ہیلتھ کیئر پلان کی وجہ سے ہی پورے گھر کو صحت کی سہولیات میسر تھیں۔

اسپتال یونین کے ایک فرد نے خاندان کو آگاہ کیا کہ مادھوی کی موت کے 30دن تک اس کے خاندان کو صحت کی سہولیات کور ہیں ۔ ’ میرا دل آپ کے لیے بہت دُکھی ہے ‘یہ بات بتاتے ہوئے یونین کے نمائندہ کے الفاظ تھے۔

مادھوی کو یہ جہاں چھوڑے کئی ہفتے بیت چکے، ان کی بیٹی اب بھی ماں کو یاد کر اس کے موبائل فون پر اپنے پیغامات پڑھتی رہتی ہیں۔

مرنے سے تین دن قبل منولی نے ماں کو لکھا تھا ’ماں میں گھر پر ہوں اور مجھے آپ کی یاد بہت ستا رہی ہے، پلیز گھر آجاؤ نا ، مجھے امید ہے آپ نے رات کا کھانا کھا لیا ہوگا ، میں اب بھی آپ کے لیے دعا کرتی ہوں کہ آپ امید نہیں ہاریں گی‘ ۔

ماں کا جواب تھا کہ جلد گھر لوٹ آؤں گی، منولی اپنی آنکھوں میں سجائے بیٹھی ہے لیکن موت مادھوی کو بیٹی سے دور بہت دور لے گئی جہاں سے اب اس نے لوٹ کر نہیں آنا اور ماں کا بیٹی سے گھر لوٹ آنے کا وعدہ کبھی وفا نہ ہوگا۔

Tags: امریکہ میں کورونا وائرسکورونا وائرس
sohail

sohail

Next Post
کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں دو ہفتوں میں خطرناک اضافہ

کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں دو ہفتوں میں خطرناک اضافہ

کورونا وبا پر قابو پانے کا صلہ: جنوبی کوریا کی حکمران جماعت بھاری اکثریت سے الیکشن جیت گئی

کورونا وبا پر قابو پانے کا صلہ: جنوبی کوریا کی حکمران جماعت بھاری اکثریت سے الیکشن جیت گئی

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آن لائن سماعت کی تجویز پیش کر دی

دنیا کے کچھ ممالک میں کورونا سے اموات کی تعداد زیادہ کیوں ہے؟

دنیا کے کچھ ممالک میں کورونا سے اموات کی تعداد زیادہ کیوں ہے؟

سویڈن میں حکومت کا لاک ڈاؤن سے انکار زندگیاں نگلنے لگا

سویڈن میں حکومت کا لاک ڈاؤن سے انکار زندگیاں نگلنے لگا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • About
  • Advertise
  • Careers
  • Contact

© 2024 Raufklasra.com

No Result
View All Result
  • Home
  • Politics
  • World
  • Business
  • Science
  • National
  • Entertainment
  • Gaming
  • Movie
  • Music
  • Sports
  • Fashion
  • Lifestyle
  • Travel
  • Tech
  • Health
  • Food

© 2024 Raufklasra.com

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In