اس وقت کورونا وائرس دنیا کے ہر حصے میں پھیل چکا ہے اس کے باوجود بعض ممالک میں مریضوں اور اموات کی تعداد بہت زیادہ ہے جبکہ بہت سے ممالک میں کورونا کا پھیلاؤ زیادہ نہیں ہے۔
16 اپریل تک امریکہ میں اموات کی تعداد 31 ہزار کے قریب ہو چکی ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے، اس کے بعد اٹلی ہے جہاں 21 ہزار 6 چھو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اسپین میں یہ نمبر 19 ہزار ایک سو 30 ہے۔
ڈان اخبار میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اموات میں اضافے کی وجوہات میں ٹیسٹ کم کرنا، آبادی کی ساخت اور دیر سے ردعمل دینا شامل ہیں۔
کورونا وائرس کو ہلکا لینا
ماہرین کے مطابق کورونا کے غیرمعمولی پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کئی ممالک نے اس کے خطرے کو پوری طرح نہیں سمجھا اور فوری اقدامات نہیں لیے۔
امریکہ، اٹلی، اسپین، ایران اور برطانیہ جیسے ممالک کی حکومتوں اور عوام نے کورونا کو بہت ہلکا خطرہ سمجھا اور یہی سمجھتے رہے کہ یہ وائرس انہیں نقصان نہیں پہنچائے گا۔
مثال کے طور پر ایرانی حکومت شروع میں اعدادوشمار اور صورتحال کی سنگینی کو کم کر کے بتاتی رہی اور عوام نے بھی حکومت کے بار بار کہنے کے باوجود مذہبی سرگرمیاں جاری رکھیں اور آخرکار کورونا کو آبادی میں پھیلنے کے لیے ضروری مہلت مل گئی۔
یورپی حکومتیں بھی ایران کی مثال سے سبق نہ سیکھ سکیں اور جلد ہی اس سے بھی زیادہ خطرناک انداز میں کورونا کا شکار ہو گئیں۔
سی این بی سی سے بات کرتے ہوئے یونیورسٹی آف ریڈنگ کے پروفیسر الینگزڈر ایڈورڈز نے اٹلی کے بارے میں بتایا کہ وہاں لوگوں کو یقین آنے سے بہت پہلے کورونا پوری طرح پھیل چکا تھا۔
اسی طرح برطانیہ نے قومی قوت مدافعت (ہرڈ ایمیونٹی) کا رستہ اپنایا جس کے نتیجے میں کورونا بری طرح پھیلا گیا اور وزیراعظم بورس جانسن کو اس نظریے کو چھوڑ کر ملک کو بند کرنا پڑا۔ وہ خود بھی اسی وائرس کا شکار ہو کر اسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں پہنچ گئے۔
برطانیہ کے ہمسائے میں ہی آئرلینڈ واقع ہے جہاں فوری طور پر لاک ڈاؤن شروع کر دیا گیا تھا جس کے باعث وہاں صورتحال بہت بہتر ہے۔
گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق مارچ کے وسط میں آئرلینڈ میں سینٹ پیٹرز ڈے کی تقریبات منسوخ کر دی گئیں لیکن برطانیہ میں کنسرٹس جاری رہے۔
نیویارک اور کیلیفورنیا میں بھی کورونا کے وسیع پیمانے پر پھیلنے کے پیچھے یہی وجوہات کارفرما تھیں، وہاں بھی ردعمل دینے میں تاخیر کی گئی۔
جانز ہاپکنز سینٹر فار ہیلتھ سیکیورٹی میں وبائی امراض کے ماہر کروتیکا کپالی کا کہنا ہے کہ ہمیں ردعمل کی بجائے جارحانہ پیش قدمی کا رویہ اپنانا ہو گا۔
ٹیسٹ کی کمی
برطانیہ اور آئرلینڈ کی مثال لیں تو ان میں ایک اور فرق ٹیسٹ کرنے کی تعداد کا ہے، آئرلینڈ میں ٹیسٹ کرنے کی تعداد برطانیہ سے دگنا رہی۔
واروک یونیورسٹی میں ماہر آبائی امراض مائیکل ٹلڈیسلے نے سی این بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جتنے زیادہ ٹیسٹ کیے جائیں اتنا ہی انتظامیہ کو اس کی سنگینی کا علم ہوتا ہے اور صورتحال پر تیزی سے ردعمل ظاہر کر سکتی ہے۔
الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسپین کو بھی شروع میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ چین سے درآمد کیے گئے ہزاروں ٹیسٹ قابل اعتماد نہیں تھے۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈائرکٹر جنرل نے گزشتہ ماہ جنیوا میں تمام ممالک کو یہی پیغام دیا تھا کہ ٹیسٹ، ٹیسٹ، ٹیسٹ۔
پاکستان میں بھی ٹیسٹ کرنے کی وجہ سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے مرکز پہچاننے میں مدد ملی لیکن ابھی بھی حکومت کو مزید ٹیسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان ابھی حال ہی میں 5 ہزار 5 سو 40 ٹیسٹس روزانہ کرنے کے قابل ہوا ہے ورنہ اس سے قبل حکومت کے پاس ڈھائی ہزار یومیہ ٹیسٹ کی صلاحیت موجود تھی۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر شخص کو ہی ٹیسٹ کرنا شروع کر دیا جائے، یہ عملی طور پر ناممکن ہے کیونکہ جن کا ٹیسٹ منفی آئے گا انہیں بار بار ٹیسٹ کرنا پڑے گا کہ وہ کہیں وائرس کا شکار تو نہیں ہو گئے۔
البتہ جن میں کورونا کی علامات ظاہر ہوں انہیں ٹیسٹ کرنا بہت ضروری ہے اور اگر ان کا ٹیسٹ مثبت آ جائے تو جن لوگوں سے ان کا رابطہ ہوا ہے ان کا ٹیسٹ بھی لازمی کرنا چاہیے۔
آبادی کی ساخت
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح اٹلی اور اسپین میں بھی بڑی عمر کے افراد سب سے پہلے اور سب سے زیادہ کورونا سے متاثر ہوئے۔
او ای سی ڈی کے ڈیٹا کے مطابق جاپان کے بعد اٹلی میں 65 برس یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے اٹالین نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹیٹسٹکس کی ڈائرکٹر لنڈا لارا سبادینی کا کہنا تھا کہ بڑی عمر کے افراد کا اپنے بچوں اور نوجوانوں سے بہت زیادہ رابطہ رہتا ہے۔
اسی طرح میلان کے ساکو اسپتال کی شعبہ وبائی امراض کی سربراہ ماسیمو گلی نے بتایا کہ ہمارے ملک میں اچھی دیکھ بھال کے باعث بڑی عمر کے افراد مختلف بیماریوں کے باوجود طویل العمری کا لطف اٹھاتے ہیں لیکن کورونا سے سب سے زیادہ خطرہ بھی انہی کو ہے۔
اگرچہ اسپین میں معمر افراد کی تعداد اتنی نہیں جتنی اٹلی میں موجود ہے لیکن وہاں بھی نوجوانوں کے ساتھ بڑی عمر کے افراد کا رابطہ بہت زیادہ ہے۔
اسی طرح گنجان آباد علاقے بھی کورونا کے پھیلاؤ کا ایک اور عنصر ہے، میڈرڈ جیسے شہروں میں بہت زیادہ افراد چھوٹی سی جگہ یا فلیٹس کے بلاکس میں رہتے ہیں۔
نیویارک کی بھی یہی صورتحال ہے جو دنیا کے گنجان آباد ترین شہروں میں سے ایک ہے، اس وجہ سے وائرس کے ایک شخص سے دوسرے کی جانب منتقل ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سٹیون گڈمین نے نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گنجان آباد علاقوں کی موجودگی اس قسم کی صورتحال میں سب سے بڑی دشمن ثابت ہوتی ہے۔
نیویارک ٹائمز کے ایک آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ ریسرچرز نے نوٹ کیا ہے کہ نیویارک اور چین کے شہر ووہان میں ایک قسم کی آبادی موجود ہے اور یہ دونوں ایک ہی طرح کے گنجان آباد شہر ہیں۔
