جیل میں قید معروف سعودی شہزادی بسمہ بنت سعود نے ٹوئٹر کے ذریعے اپنے چچا شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے رہائی کے لیے اپیل کر دی۔
تفصیلات کے مطابق 56 سالہ سعودی شہزادی، جو ایک بڑی کاروباری خاتون اور شاہی کنبے کی رکن ہیں، کو گزشتہ سال مارچ میں طبی علاج کے لیے سوئٹزرلینڈ جانے سے قبل ہی حراست میں لیا گیا تھا۔
عالمی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اپنی رہائی کے لیے شہزادی کی اس طرح کی عوامی اپیل سعودی شاہی خاندان میں پائے جانے والے اس ہنگامے کی کڑی ہے جس میں شاہ سلمان کے بھائی اور بھتیجے کی گزشتہ ماہ گرفتاری کی گئی تھی۔
کورونا وبا سعودی عرب کے شاہی خاندان تک پہنچ گئی
سعودی عرب نے کورونا کے تمام مریضوں کے مفت علاج کا اعلان کردیا
سعودی شہزادی نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر شائع ہونے والے ایک خط میں سوالیہ انداز میں پوچھا ہے کہ اس وقت مجھے غیر منطقی طور پر بغیر کسی جرم اور الزام کے ”الحیر“جیل میں رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری صحت بہت زیادہ خراب ہے اور خرابی صحت کی وجہ سے میری موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
شہزادی بسمہ نے مزید کہا ہے کہ مجھے کسی قسم کی میڈیکل سہولت فراہم نہیں کی جا رہی اور نہ ہی ان خطوط کا جواب ملا ہے جو اس نے جیل سے شاہی عدالت کو لکھے تھے، سعود حکام کی جانب سے نظر بندی کی کوئی وجوہات بھی تاحال ظاہر نہیں کی گئی ہیں۔
شہزادی نے دعویٰ کیا ہے کہ مجھے میری بیٹی سمیت اغوا کرنے کے بعد جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔
سعودی شہزادی بسمہ نے اپنے چچا بادشاہ سلمان اور اپنے کزن حکمران ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے اپنی رہائی کے لیے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے کسی قسم کا کوئی غلط کام نہیں کیا تھا اور اس وقت اس کی صحت کافی خراب ہے۔
شہزادی بسمہ کا خط اس وقت منظر عام پر آیا ہے جب دنیا بھر کی طرح سعودی عرب میں بھی کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے سعودی حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن بھی کیا گیا ہے اورکئی شہروں میں کرفیو بھی نافذ کیا گیا ہے۔
سعودی عرب میں کورونا کے 7 ہزار سے زائد مریض سامنے آ چکے ہیں اور اب تک 87 اموات بھی واقع ہو چکی ہیں۔
یہ بات واضح نہیں ہوئی ہے کہ ریاض کے قریب سیاسی قیدیوں کی مشہور جیل ”الحیر“ سے اعلیٰ سیکیورٹی کے باوجود شہزادی بسمہ کس طرح ٹویٹ کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
ان کی عوامی التجا بادشاہت کے وسیع و عریض شاہی خاندان کے کسی فرد کے غیرمعمولی جرات مندانہ اقدام کی نمائندگی کرتی ہے، شاہی کنبے میں ہزاروں افراد شامل ہیں جو عام طور پر داخلی شکایات کو عوامی طور پر اٹھانے سے گریز کرتے ہیں۔
یہ بادشاہ کے بھائی پرنس احمد بن عبد العزیز ال سعود اور بادشاہ کے بھتیجے شہزادہ محمد بن نائف کی حراست کے بعد ہوا ہے جو شہزادہ سلمان سے ولی عہد تھے۔
سعودی حکومت نے اس وقت تک باضابطہ طور پر اس کریک ڈاؤن پر کسی قسم کا کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن شاہی عدالت کے قریبی ذرائع نے اس طرح کے تمام خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نظربندیوں کا مقصد شاہی خاندان کے اندر ایک سخت انتباہ بھیجنا تھا تاکہ وہ ولی عہد شہزادے کی مخالفت نہ کرے۔
شہزادہ محمد اس وقت عرب دنیا کے سب سے طاقتور تخت کے وارث ہیں جنہوں نے 2017 میں سیاسی مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تھا، اس دوران متعد خواتین کارکنان، علما، بلاگرز اور صحافیوں کو بھی گرفتار کر کے جیلوں میں بند کیا گیا ہے۔
