امریکی نیوزروم گزشتہ ایک ماہ کے دوران ملازمت سے برطرفی، کام سے ناغے اور تنخواہوں میں کمی جیسے مسائل سے بھر چکے ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جبکہ کورونا وائرس کے متعلق پڑھنے اور دیکھنے والوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ٹامپا بے ٹائمز اخبار نے 11 صحافیوں کو برطرف کر دیا ہے جبکہ اس نے اپنا پرنٹ ایڈیشن پانچ روز تک بند کیے رکھا، اسی طرح سیٹل کے پلٹزر ایوارڈ جیتنے والے ہفتہ وار جریدے سٹرینجر نے بھی عملے کے 18 افراد کو ملازمت سے نکال دیا ہے اور پرنٹنگ بالکل روک دی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق یہی صورتحال ڈینور پوسٹ اور بوسٹن ہیرالڈ کی ہے جبکہ ڈلاس مارننگ نیوز میں تنخواہوں میں کٹوتی کی گئی ہے، کچھ چھوٹے اخبار پوری طرح بند ہو چکے ہیں۔
دو ماہ قبل کلیولینڈ پلین ڈیلر کی تجربہ کار ہیلتھ کیئر رپورٹر برائے زیلٹنر کو پوری طرح کورونا وائرس کی مصروفیات نے گھیرا ہوا تھا۔
وہ قریبی ریاستوں اور بعد ازاں اوہوئیو میں ابتدائی کیسز کی تفصیل اپنے اخبار کو بھیجتی رہی، اس نے ایک مقامی خاتون کا انٹرویو بھی کیا جس کا کورونا کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔
اس نے ریاست کی کورونا کے ٹیسٹ کی کمیابی پر بھی سوالات اٹھائے، اس نے کورونا کی روک تھام کے لیے صحت سے متعلقہ حکام کی حکمت عملی پر بھی تنقید کی۔
گزشتہ ہفتے کورونا سے پیدا ہونے والا مالی بحران اس کے کام کرنے کی جگہ تک پہنچ گیا، اخبار نے کم ہوتے اشتہارات اور معیشت کی اچانک بدحالی کے باعث زیلٹنر سمیت 22 افراد کو نوکری سے نکال دیا۔
اس کا کہنا ہے کہ ایک ہیلتھ رپورٹر کے لیے دنیا میں ہونے والے واقعات کو دیکھنا اور باہر جا کر اس کی رپورٹنگ نہ کر سکتا بہت تکلیف دہ بات ہے۔
چھوٹے پیمانے کے تمام کاروبار ہر جگہ متاثر ہو رہے ہیں اور اس ماہ کے دوران تنخواہوں میں ہونے والی کمی میڈیا انڈسٹری کی ایک دہائی سے جاری بدحالی کا حصہ نظر آتا ہے۔
اس وقت عوام زیادہ سے زیادہ آن لائن ویب سائیٹس کا رخ کر رہے ہیں اور ملک میں ویب کے اشتہارات کی مارکیٹ پر بڑے کھلاڑیوں کا قبضہ ہے جس کے باعث نئی ویب سائیٹس کو اپنی جگہ بنانے میں جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔
لیکن یہ کورونا وائرس کی وبا شروع ہونے سے پہلے ان تمام مسائل کے باوجود لوگ کام کر رہے تھے، لیکن اب تو اس شعبے کی بقا کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے کیونکہ خبریں مہیا کرنے والے کئی اداروں کے اشتہارات کا ذریعہ مقامی کاروبار تھے جو خود برے حالات کا شکار ہیں۔
ان حالات میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے، بہت سی کہانیوں کو عوام کے سامنے پیش کرنے والا کوئی نہیں جبکہ کئی خبریں پڑھنے اور دیکھنے والوں تک نہیں پہنچ پا رہیں کیونکہ کوئی بھی انہیں رپورٹ کرنے والا موجود نہیں ہے۔
تامپا بے نیوز، جس نے 96 سال میں سوائے پچھلے ہفتے کبھی اخبار پرنٹ کرنا بند نہیں کیا، کے چیئرمین پال تاش کا کہنا ہے کہ ہم جو کام کرتے ہیں اس کی بہت طلب موجود ہے لیکن دوسری طرف ہمیں اشتہارات فراہم کرنے والوں کے کاروبار بہت دباؤ میں ہیں۔
صدر ٹرمپ نے گزشتہ دنوں ایک ٹویٹ میں اس بات پر خوشی کا اظہار کیا تھا کہ نیویارک ٹائمز کو اب کم اشتہار مل رہے ہیں اور واشنگٹن پوسٹ کی حالت بھی بہتر نہیں ہے۔
ٹرمپ کی تنقید کا نشانہ بننے والے کئی قومی اخبارات موجودہ حالات سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے کیونکہ ایک طرف انہیں اشتہارات مل رہے ہیں تو دوسری طرف انہوں نے ڈیجیٹل سبسکرپشن شروع کی ہوئی ہے، ان میں وال سٹریٹ جنرل، دی پوسٹ اور ٹائمز شامل ہیں۔
ان تمام حالات نے ایک نئے تصور کر جنم دیا ہے جو اس سے پہلے موجود نہیں تھا، اور وہ ہے حکومت کی جانب سے بیل آؤٹ۔
میڈیا کے کاروبار کا تجزیہ کرنے والے رک ایڈمنڈز نے کہا کہ نیوز کمپنیوں کو قرض کے لیے حکومت کے پے چیک پروٹیکشن پروگرام میں اپلائی کرنا چاہیے۔
نیوز کمپنیاں حکومتوں سے قرض لینے کو ناپسند کرتی ہیں کیونکہ اس میں مفادات کے ٹکراؤ کا خدشہ ہوتا ہے۔
بدھ کے روز 19 سینیٹرز نے ایک مشترکہ بیان پر دستخط کیے جس میں ان کا کہنا تھا کہ مقامی صحافت کو بھی مستقبل کے معاشی بہتری کے منصوبوں میں شامل کیا جان چاہیے۔