سپریم کورٹ آف پاکستان نے زکوٰۃ اور بیت المال کی رقم کے استعمال سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل اور مفتی تقی عثمانی سے شرعی رائے طلب کر لی ہے کہ کیا زکوٰۃ اور بیت المال کی رقم سے ادارے کی تنخواہیں دی جا سکتی ہیں؟
عدالت نے یہ بھی دریافت کیا ہے کہ کیا زکوٰۃ اور صدقے کی رقم سے ادارے کے دیگر اخراجات بھی چلائے جا سکتے ہیں یا نہیں۔
عدالت نے زکوٰۃ فنڈز کی رقوم کی ادائیگی میں شفافیت سے متعلق تمام صوبوں اور آئی سی ٹی سے رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔ عدالت نے چاروں صوبوں اوروفاق سے آئندہ سماعت سے قبل کورونا وائرس پر پیش رفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی۔
سماعت کا احوال
سپریم کورٹ میں کورونا وبا کے انسداد کے لیے حکومتی اقدامات سے متعلق ازخود کیس کی سماعت کا آغاز چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے دوبارہ کیا تو اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت کا جواب کہاں ہے جس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ وزارت صحت اور این ڈی ایم اے نے الگ الگ جواب دیے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ محکمہ زکوٰۃ نے کوئی معلومات نہیں دیں اور جواب میں صرف قانون بتایا گیا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت زکوٰۃ فنڈ صوبوں کو دیتی ہے جو اسے مستحقین تک نہیں پہنچاتیں جبکہ زکوٰۃ فنڈ کا بڑا حصہ تو انتظامی اخراجات پرصرف ہوجاتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ بیت المال میں بھی بڑا حصہ انتظامی امور پر خرچ ہوتا ہے، بیت المال والے کسی کو فنڈ نہیں دیتے، حکومت سندھ کی ہو یا دوسرے صوبے کی، مسئلہ شفافیت کا ہے، عدالت کو صرف یہ بتایا گیا کہ امداد دی گئی مگر اس کی تفصیل نہیں دی گئی۔
بینچ میں موجود جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ کے مطابق وفاق نے9 ارب سے زائد زکوٰۃ جمع کی جبکہ مستحقین تک رقم کیسے جاتی ہے، اس کا کچھ نہیں بتایا گیا، وفاقی حکومت کو زکوٰۃ فنڈ کا آڈٹ کرانا چاہیے اس سے صوبائی خودمختاری متاثر نہیں ہو گی۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ زکوٰۃ کے پیسے سے دفتری امور نہیں چلائے جا سکتے اور نہ ہی اس سے لوگوں کو جہاز پر سفر کرایا جا سکتا ہے، ضروری ہے کہ یہ رقم ٹی اے ڈی اے پر خرچ نہ ہو بلکہ مستحق لوگوں تک پہنچے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ 9.251 ارب روپے جمع ہوئے مگر نہیں پتا صوبوں نے کہاں خرچ کیے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حاجی کیمپ کے قرنطینہ سینٹر میں کوئی سہولتیں موجود نہیں، وہاں بھیجے جانے والے اکثر اس بات کی شکایت کر رہے ہیں۔
سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ وہاں پر سہولیات موجود ہیں تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ خود وہاں پر گئے ہیں؟ اس کا جواب سیکرٹری صحت نے نفی میں دیا تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ وہاں کیوں نہیں گئے آپ آج خود وہاں بھی جائیں اور دوسرے قرنطینہ مراکز کا بھی دورہ کریں۔
چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ مزارات کے پیسے سے افسران کیسے تنخواہ لے رہے ہیں، ڈی جی بیت المال بھی زکوٰۃ فنڈ سے تنخواہ لے رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ افسران کی تنخواہیں حکومت کو دینی چاہئیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو قوانین صوبوں نے بنائے ہیں ان کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے، قرنطینہ مراکز میں مقیم افراد سے پیسے لیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید استفسار کیا کہ قرنطینہ کے لیے ہوٹلز کا انتخاب کن بنیادوں پر کیا گیا تمام ہوٹلز کو قرنطینہ بنانے کاموقع کیوں نہیں دیا گیا؟ جو پیسے نہیں دے سکتے انہیں مفت قرنطینہ میں منتقل کیا جانا چاہیے، حاجی کیمپ قرنطینہ مراکز میں حالات غیر انسانی ہیں، اسلام آباد میں کتنے قرنطینہ سینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔
سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد میں 16 قرنطینہ سینٹرز قائم ہیں جن میں ہوٹلز، حاجی کیمپ، او جی ڈی سی ایل بلڈنگ اور پاک چائنہ سینٹر شامل ہیں، بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کو 24 گھنٹے ان قرنطینہ سنٹرز میں رکھا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان قرنطینہ سینٹرز میں رکھے جانے کا خرچ کون برداشت کرتا ہے جس پر سیکرٹری صحت نے جواب دیا کہ حکومت اس کا خرچ برداشت کرتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے مردان میں سعودی عرب سے آئے شخص نے کورونا پھیلایا، پیناڈول کھا کر ائیرپورٹ سے نکلا اور پوری یونین کونسل بند کرنا پڑی۔
سیکرٹری صحت نے کہا کہ اسی وجہ سے اب لوگوں کو 24 گھنٹے میں قرنطینہ میں رکھا جا رہا ہے۔ قرنطینہ کے لیے ہوٹلوں کے انتخاب پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسی ہوٹل کو زبردستی قرنطینہ نہیں بنا سکتے۔
سیکرٹر ی صحت نے یقین دہانی کرائی کہ وہ آج ہی حاجی کیمپ قرنطینہ کا دورہ کر کے سہولیات کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔ چیف جسٹس نے ہدایات دیں کہ قرنطینہ مراکز میں کھانا اور تمام بنیادی سہولیات کی دستیابی یقینی بنائیں حکومت پیسے بہت خرچ کر رہی ہے لیکن نظر نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے۔
دوران سماعت بینچ میں موجود جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کہ کیا پلازمہ انفیوژن سے واقعی کورونا کاعلاج ممکن ہے جس پر سیکرٹری صحت نے جواب دیا کہ پلازمہ انفیوژن ٹیسٹنگ کے مراحل میں ہے ابھی تک اس کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ چک شہزاد میں 32 کنال پر قرنطینہ سنٹر بنا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ قرنطینہ مراکز کی چھت کس مٹیریل سے بنائی جا رہی ہیں؟ عدالت کو بتایا گیا کہ قرنطینہ مراکز میں چھتیں فائبر سے بنائی جا رہی ہے۔
چیف جسٹس نے دوبارہ استفسار کیا کہ ان مراکز میں موسم کو کیسے کنٹرول کریں گے جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بینچ کو بتایا کہ ان قرنطینہ مراکز میں پنکھے اور دیگر آلات فراہم کیے جائیں گے، مراکز کی تعمیر کی ذمہ داری این ڈی ایم اے کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے جو سوال کیا جا رہا ہے آپ اس کا جواب نہیں دے رہے، اگر ورلڈ بنک سے پیسہ آتا ہے اور سامان باہر سے منگوا لیا جاتا ہے تو پیسہ تو باہر ہی رہا اس کا فائدہ کیا ہوا؟ سامان ملک میں کیوں نہیں بنایا جا رہا؟
جسٹس قاضٰ امین نے استفسار کیا کہ ملک میں اسکول اور کالج کی عمارتیں موجود ہیں انہیں استعمال کیوں نہیں کیا جا رہا؟ ان عمارتوں میں پنکھے، بجلی اور دیگر آلات بھی موجود ہیں، بجائے ہوٹل کرائے پر لیے جائیں ان عمارتوں کا استعمال کیوں نہیں ہو رہا؟
اٹارنی جنرل نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اچھا نقطہ ہے اس پر حکومت کو غور کرنے کے لیے کہیں گے۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے عدالت کو بتایا کہ 30 مارچ سے راشن تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اج تک جاری ہے، ایک بیگ میں دس دن کا راشن ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دوسرے مرحلہ میں مزید ڈیڑھ ارب خرچ ہوں گیے بالاخر سندھ حکومت 8 ارب تک پہنچ ہی جائے گی، 8 ارب کے اعداو شمار پر ہم نے یقین نہیں کیا۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سندھ میں معاشی سرگرمیاں شروع ہونے جا رہی ہیں۔
زکوٰۃ کے حوالے سے ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سندھ میں 569 ملین روپے 94 ہزارسے زائد افراد کو دیے گئے، تمام رقم زکوٰۃ فنڈز سے مستحقین کو دی گئی۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ 569 ملین روپے کن افراد کو ادا کئے گئے جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ زکوٰۃ انہی افراد کو دی گئی جنہیں ہرسال دی جاتی ہے، سندھ میں فی کس چھ ہزار روپے زکوٰۃ دی گئی۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے یونین کونسلز کو سیل کرنے کے حوالے سے بتایا کہ لازمی نہیں کورونا کا ہر مریض بیمار بھی ہو، سیل کی گئی گیارہ یونین کونسل کی کل آبادی 6 لاکھ 74 ہزار سے زائد ہے، بارہ اپریل تک 234 کورونا کیسز گیارہ یونین کونسل سے نکلے تھے، ایک سنٹر میں بارہ سو مریض رکھنے کی گنجائش ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک 168 افراد کو گھروں میں ہی قرنطینہ کیا گیا ہے، 45 مریض ہسپتال میں ہیں اور تمام کی حالت تشویشناک ہے، عدالت کو فراہم کی گئی تمام معلومات درست ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کسی کو علم نہیں ہوا اور سندھ حکومت نے ایک ارب کا راشن بانٹ دیا، سندھ حکومت چھوٹا سے کام کرکے اخباروں میں تصویریں لگواتی ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ صبح چار سے سات بجے تک گھرگھر راشن تقسیم کیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سنا ہے آپ نے سندھ میں زائد المعیاد آٹا اور چینی بانٹی جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ایسی بات نہیں ہے، پتہ نہیں ایسی باتیں کون پھیلاتا ہے، کورونا پر سیاست نہیں کرنا چاہتے اس لیے تصویریں نہیں بنا رہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ ہمارے صوبے کے بارے میں باتیں کیوں بنتی ہیں، سندھ سے متعلق باتیں بلاوجہ تو نہیں بنتی کوئی تو وجہ ہے۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ میں 22 ہزار گھروں کا تعین کیسے کیا گیا، راشن کی تقسیم کے لیے ڈسٹرکٹ ویسٹ چھوٹا نہیں ایک یورپی ملک جتنا ہے۔
ایڈوویکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ یونین کونسلز کی کمیٹیاں مستحقین کا چناؤ کرتی ہیں، جس گھر کو راشن دیا گیا انہیں تو معلوم ہے۔ ہم نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ تقسیم کی جانے والے اشیاء یوٹیلٹی سٹورز سے خریدی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سندھ میں صرف مقامی تیار کردہ کٹ استعمال ہوں گی، این 95 ماسک 425 اور سرجیکل ماسک 27 روپے میں مل رہا ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ سندھ حکومت کے لیے خریداری کون کر رہا ہے جس پر سیکرٹری صحت سندھ نے کہا کہ سول سوسائٹی کے نمائندگان پر مشتمل کمیٹی خریداری کرتی ہے، ایڈدکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ سول سوسائٹی کو ڈالنے کا مقصد بے جا الزامات سے بچنا تھا۔
ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ جو صنعتیں کھلیں گی وہ مخصوص دنوں میں ہی کام کریں گی، جنکی ملازمت شروع ہو گی انہیں راشن کی ضرورت نہیں رہے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کپڑے کی دکان کھولے بغیر درزی کی دکان کھولنے کا کیا فائدہ، درزی کو کپڑا اور دیگر چیزیں بھی چاہیے ہوتی ہیں، ایسے تو درزی ہاتھ ہر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں بعض صنعتوں کو کام کی اجازت دینا اچھا فیصلہ ہے لیکن فیکٹریز ایکٹ پر سندھ کی کوئی فیکٹری پورا نہیں اترتی، ملازمین کے تحفظ کوبھی مدنظر رکھنا ہو گا، بلدیہ فیکٹری میں آگ لگی تو لوگوں کو بھاگنے کا رستہ بھی نہ ملا، بلدیہ فیکٹری کی کھڑکیاں بھی سیل کر دی گئیں تھیں، فیکٹری مالکان اپنے عملے کو انسان نہیں سمجھتے۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا سے استفسار کیا کہ مردان کی یوسی منگاہ میں کیا صورتحال ہے جس پر بینچ کو بتایا گیا کہ اسے کھول دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ طورخم بارڈر سے آنے والوں کو کیسے اور کہاں رکھا جائے گا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ طورخم بارڈر پر پھنسے پاکستانیوں کو واپس آنے دیا جائے گا، اب تک اڑھائی ہزار افراد واپس آئے ہیں طورخم سے انے والوں کو قرنطینہ کیا جاتا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ چمن اور تفتان بارڈر پر قرنطینہ مراکز قائم کر دیے گئے ہیں، قلعہ عبداللہ میں 800 افراد کے لیے ٹینٹ سٹی قائم کر دیا ہے، صرف راشن دے رہے ہیں، کسی کو نقد امداد نہیں دی،صوبائی حکومت نے 21 ہزار، این جی اوز نے 26 ہزار خاندانوں کو راشن دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بلوچستان حکومت کی رپورٹ میں بھی شفافیت کا مسئلہ ہے۔
وزارت صحت
وزارت صحت نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی ہے جس میں ملک سے دو کروڑ ماسک سمگل کرنے کا الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق صرف 35 لاکھ ماسک چین کی حکومت کی درخواست پر پانچ چینی کمپنیوں کو ایکسپورٹ کئے گئے تاہم اس معاملے کی تحقیقات اہف آئی اے کررہا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملک میں فیس ماسک کی کمی نہیں، این آئی ایچ میں کرونا وائرس کے مریضوں اور ان سے رابطے میں آنے والوں کے ٹیسٹس مفت کئے جا رہے ہیں، ڈریپ کی سفارش پر پروٹوٹائیپ وینٹی لیٹرز مقامی سطح پر بنانے کی اجازت دے دی گئی ہے، 100 لائسنس ہولڈرز کو ڈبلیو ایچ او کے معیار کے مطابق 300 سینیٹائیزر بنانے کی اجازت دی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اپریل کے آخر تک 20 ہزار ٹیسٹ کرنے کے اہل ہو جائینگے، گزشتہ چوبیس گھنٹے میں 6416 ٹیسٹ کئے گئے، پی پی ایز کی قیمت مستحکم رکھنے کے لئے پورے ملک میں 100 سے زائد چھاپے مارے گئے، کرونا وائرس کی خصوصی ڈیوٹی کے دوران شہید ھونے والے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے لئے خصوصی پیکیج تیاری کے مراحل میں ہے۔
اسلام آباد بار ایسوسی ایشن اور ڈسٹرکٹ بار
اسلام آباد بار ایسوسی ایشن اور ڈسٹرکٹ بار کے صدور نے سپریم کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں ہم نے وکلا کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا، وکلا اور ہزاروں سائلین روزانہ عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں۔ ججز اور ان کے عملے کے لیے بھی کرونا سے نمٹنے کے لیے کوئی تحفظ نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے وکلا کو ایک ماسک تک بھی نہیں دیا گیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں منشی، فوٹو کاپیر، ٹائپسٹ اور دیگر لوگ کچہری میں کام کرتے ہیں۔ کچہری میں سنیٹائرز اور ماسک تک نہیں دیے گئے، مالی مسائل کے شکار وکلا کے لیے سہل اور آسان شرائط پر ذاتی قرض کی استدعا کی ہے۔
عدالت نے ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کو ہمارے مسائل حل کرنے کا حکم دیا ہے، عدالت نے وکلا کے لیے اقدامات کرکے رپورٹ طلب کی ہے۔