کورونا وائرس وبا کے دوران بنی فضا میں بہت سی ننھی جانوں کو زندگی بھر معذروی کا خطرہ درپیش ہے جن میں وہاڑی کی دعا فاطمہ بھی شامل ہے۔ بولنے اور سننے کی صلاحیت سے محروم دعا فاطمہ کے پاس علاج کیلیے 6 ماہ کا عرصہ بچا ہے۔
اس عرصہ میں اسکے محنت کش والدین کو بیٹی کے علاج کیلیے ڈاکٹروں کی جانب سے 14 لاکھ روپے کا انتظام کرنے کا ٹاسک ملا ہے۔ بیٹی کو پیاربھرے بول سنانے اور اسکی میٹھی آواز سننے کے ارمان سجائے مزدور والدین نے حکومت اور مخیر حضرات سے ننھی پری کے علاج کی امیدیں لگا لی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پنجاب کے ضلع وہاڑی کے گاؤں چک نمبر118 ڈبلیو بی کے دیہاڑی دار مزدور غلام عباس کی بیٹی دعا فاطمہ بول اور سن نہیں سکتی۔ ڈاکٹروں کی جا نب سے غریب والدین کو بتایا گیا ہے کہ دعا فاطمہ کا علاج ممکن ہے اوراس کے لیے انہیں بچی کی سرجری کر کے کان کے پیچھے ’کاکلیئر امپلانٹ‘ نامی آلہ لگانا پڑے گا۔
دعا فاطمہ کی عمر ساڑھے 4 برس ہے جبکہ ڈاکٹر حضرات کی جانب سے والدین کو بتایا گیا ہے کہ انکی بچی کا علاج 5 برس کی عمر سے پہلے ممکن ہے اور اگر دیر ہوگئی تو دعا فاطمہ کو زندگی بھر معذوری کی زندگی گزارنا پڑ سکتی ہے۔
ڈاکٹروں کی ہدایات کی روشنی میں دعا فاطمہ کے علاج کے لیے اب صرف 6 ماہ کا عرصہ بچا ہے۔
ملتان کے مختار اے شیخ اسپتال کے ڈاکٹروں کی جانب سے دعا فاطمہ کے والدین کو بتایا گیا ہے کہ بچی کے علاج کیلیے ”کاکلیئرامپلانٹ‘ نامی آلہ امپورٹ کرنا پڑے گا جس کے بعد دعا فاطمہ نارمل بچوں کی طرح زندگی گزار سکے گی۔ اسپتال کی جانب سے آلہ اور سرجری کی لاگت 14 لاکھ بتائی گئی ہے جو کہ محنت کش والدین کے لیے ناممکن ہے۔ دعا فاطمہ کی ایک اور بہن بھی معذور ہے اور اسکے والدین کا خواب ہے کہ انکی بیٹی بول سکے اور انکی باتیں سن سکے۔
معذور بچی کے والدین کی جانب سے وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، گورنر پنجاب چوہدری سرور، وزیرصحت ڈاکٹر یاسمین راشد، ایم ڈی بیت المال عون عباس بپی اور دیگر مخیر حضرات سے اپیل کی گئی ہے کہ انکی بچی کا علاج کرایا جائے۔
غریب والدین کا کہنا ہے کہ انہیں پیسے نہ دئے جائیں بلکہ انکی بچی کا علاج کرایا جائے۔ انکا مزید کہنا ہے کہ انکی دونوں بچیاں معذور ہیں جبکہ ایک بچی کا علاج ممکن ہے جس کے لیے وقت کم ہے۔