سائنسدانوں نے خلا میں موجود زمین سے مماثلت رکھنے والا ایک سیارہ دریافت کر لیا ہے جو امکانی طور پر رہائش کے قابل نظر آتا ہے۔
یہ سیارہ 2009 سے 2018 کے دوران کام کرنے والی کیپلر سپیس دوربین نے دریافت کیا تھا مگر یہ سائنسدانوں کی نظر سے چوک گیا تھا، انہوں نے ایک مرتبہ پھر ڈیٹا کا جائزہ لیا تو یہ سیارہ بھی دریافت ہو گیا۔
برطانوی اخبار میٹرو کے مطابق اب تک جتنے بھی زمین سے ملتے جلتے سیارے یا ایکسوپلینٹ دریافت ہوئے ہیں یہ ان سب سے زیادہ ہمارے اپنے سیارے سے مماثلت رکھتا ہے، اس کا نام کیپلر 1649 سی رکھا گیا ہے۔
یہ اپنے ستارے سے سورج کی نسبت 75 فیصد روشنی حاصل کرتا ہے، اس لیے یہاں پانی کی موجودگی کا بہت امکان پایا گیا ہے۔
واشنگٹن میں ناسا کے سائنس مشن ڈائرکٹوریٹ کے ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹر تھامس زوبوشاں کا کہنا ہے کہ یہ دوردراز کا سیارہ ہمیں بہت امید دلاتا ہے کہ ایسی دوسری زمینیں ستاروں میں موجود ہیں جنہیں دریافت کرنا باقی ہے۔
یہ سیارہ زمین سے 300 نوری سالوں کے فاصلے پر ہے اور یہاں خلائی مخلوق کی موجودگی کا امکان بھی موجود ہے تاہم اس بات کا امکان کم ہے کہ ہم کبھی اتنی دور پہنچ پائیں گے۔
اس کے باوجود خلا میں کسی مخلوق کی تلاش میں سرگرم سائنسدانوں کے لیے یہ دریافت بہت اہمیت رکھتی ہے۔
یونیورسٹی آف ٹیکساس کے ریسرچر اینڈریو وینڈربرگ کا کہنا ہے کہ اب تک ہم نے جتنے بھی سیارے دریافت کیے ہیں ان میں یہ سب سے زیادہ پرجوش کر دینے والا ہے۔
اپنے ستارے کے ساتھ اس کا فاصلہ زمین اور سورج کے درمیانی فاصلے سے کم ہے اس لیے یہاں خطرناک شعاعوں کی موجودگی کا امکان ہے جس کے باعث زندہ مخلوق کے موجودگی بھی مشکوک قرار پاتی ہے۔
وینڈربرگ کے مطابق ہم جتنا زیادہ ڈیٹا حاصل کر رہے ہیں اتنا ہی اس بات کے اشارے مل رہے ہیں کہ زمین کے حجم کے برابر اور رہائش کے قابل ایکسوپلینٹ اس قسم کے ستاروں کے ساتھ پھیلے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہماری کہکشاں میں ریڈ ڈوارف ستارے ہر جگہ موجود ہیں اور ان کے اردگرد ممکنہ طور پر رہائش کے قابل پہاڑی چٹانوں پر مشتمل سیارے بھی موجود ہیں اور اس بات کا روشن امکان ہے کہ ان میں سے کوئی ایک سیارہ زمین جیسا ہی ہو۔