تیسری جماعت کی بات ہے جب اپنے گاؤں موضع مگھرانہ کے سرکاری اسکول میں ٹاٹوں پر بیٹھے کچی زمین پر لکیریں کھینچ رہے تھے کہ کانوں میں آواز سنائی دی.”نویں استاد جی“( نئے ماسٹر صاحب ) اسکول میں آ گئے ہیں۔ یہ آواز سنتے ہی سارے جسم میں جھرجھری سی پیدا ہوئی اور خوف سے کپکپی طاری ہو گئی کہ خدا جانے نیا استاد کیسا ہوگا۔
زمیندار گھرانے اور گاؤں کے نمبردار کا نواسہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ استادوں اور ان کے آنے والے مہمانوں کے لیے چائے لسی لانے کے لیے عمومی طور پر مجھے ہی گھر بھیجا جاتا تھا مگر اس دن نہ جانے کیا ہوا کہ نئے آنے والے استاد کے لیے لسی لانے کو دل کیا اور نہ ہی ان سے چائے پانی کا پوچھا۔ شاید یہ کیفیت سابقہ استاد صاحب کی وجہ سے تھی جو روزانہ درخت سے تازہ چھڑی تیار کرا کر اور بچوں کو مرغا بنا کر ایسی پٹائی کرتے کہ زمین پر بیٹھنے کے قابل تک نہ چھوڑتے تھے۔ ”مار نہیں پیار“ تب یہ سلوگن نہیں تھا۔
نئے ماسٹر صاحب شہر سے تشریف لائے تھے اس لیے انہوں نے اپنا مختصرا سا تعارف کرا کے اسکول کا دورہ کیا اور پڑھانے لگ گئے۔ کچی جماعت سے لے کر پانجویں تک تمام جماعتوں کے لیے ایک ہی استاد تھا اور ان کے آنے سے پہلے ہی سابقہ استاد جی ( دیہاتوں میں ٹیچر کو ادب سے استاد جی کہتے ہیں) کا تبادلہ ہو گیا تھا۔
چھٹی ہوئی، ماسٹر صاحب ڈیرے پر تشریف لائے جہاں نانا ابو نے ان کے رہنے کے لیے ایک کمرہ مخصوص کر دیا اور چاچا نورے (ڈیرے پر مہمانوں کی خدمت کے لیے رکھا گیا مستقل ملازم ) سے کہا کہ ماسٹر صاحب کی خدمت میں کمی نہیں آ نی چاہئے۔ یوں استاد جی نے ڈیڑے پر رہنا شروع کر دیا۔ تب جمعرات کو آدھی چھٹی ہوا کرتی تھی اور جمعہ کے روز مکمل چھٹی ہوتی تھی۔ استاد جی جمعرات کو اسکول کی چھٹی کے بعد شہر چلے جاتے تھے اور ہفتہ کے روز صبح سویرے اسکول پہنچ جاتے تھے۔ سردیوں اور گرمیوں میں استاد جی کو کبھی دیر سے آتے نہیں دیکھا۔
ہمارے اسکول کی تعداد بہت کم تھی مگر استاد جی کے آنے کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے طلبہ بڑھنے لگے۔ اسکول میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں پر توجہ دی گئی، یوں اسکول کا نام پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ تلاوت، نعت، تقریروں اور کھیلوں میں ہمارا اسکول پہلی پوزیشن پر آنے لگا۔ استاد جی نے اپنی محنت سے درس گاہ کو رنگارنگ پھولوں سے لاد دیا اور درختوں سے بھر دیا۔ یوں اس جگہ کی خوبصورتی میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔
ہمارے ضلع وہاڑی میں موضع مگھرانہ کے اسکول اور ہمارے استاد کی دھوم مچ گئی۔ گاؤں کے پاس سے گزرتے وقت تحصیل اور ضلع کے افسران اس کا دورہ کرنے لگے یہاں تک کہ چھٹی کے روز بھی افسران اسکول دیکھنے آ جاتے اور تعریف کیے بغیر نہ رہ پاتے۔ میں نے تب افسران کو پانچ سو اور ہزار روپے تک انعام کی رقم بھی دیتے دیکھا جو استاد جی قبول نہیں کرتے تھے، مگر جب افسران کہتے کہ اس سے اسکول کے لیے کچھ لے لینا تو پھر یہ رقم قبول کی جاتی۔
تدریس کی خشک جگہ کو حسن و خوبصورتی کی پوشاک پہنانے اور اسے برقرار رکھنے میں استاد جی کی ذہنی، جسمانی محنت کے ساتھ آدھی تنخواہ بھی خرچ ہو جاتی تھی۔ میں نے پہلی بار اپنے گاؤں کے لوگوں کو کسی استاد کی عزت کرتے دیکھا۔ وہ جب گلی سے گزرتے تو لوگ جھک کر ملتے۔ اسکول کے ساتھ گاؤں کی مسجد بھی آباد ہو گئی۔ بچوں کو نماز کی تلقین کی جاتی جس کی وجہ سے مسجد مکمل بھر جاتی تھی۔
جب ہم پانچویں جماعت میں پہنچے تو استاد جی نے ہمارے بستر ڈیرے میں اپنے ہی کمرے میں فرش پر لگوا دیے جہاں ہم شام کے بعد کچھ گھنٹوں تک استاد جی کے پاس پڑھائی کرتے تھے اور فجر کے بعد اسکول جانے سے پہلے بھی ہمیں پڑھائی کرنی ہوتی تھی۔ ہمیں کھیلنے کے لیے مناسب وقت دیا جاتا تھا اور کھانے کی بھی بریک ملتی تھی مگر گھر سونے کی اجازت نہیں تھی۔ دن لمحوں میں بیت گئے۔ امتحانات ہو گئے۔ مرکز میں یعنی 70 اسکولوں میں، میری پہلی اور میرے تایا زاد بھائی سلیم اختر کی تیسری پوزیشن تھی
اس کے بعد اسکول کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ہم شہر چلے گئے کیونکہ اسکول پرائمری تک تھا۔ گاؤں کی اس درسگاہ میں پہلی پوزیشن کا سلسلہ تب تک قائم رہا جب تک استاد جی موضع مگھرانہ میں پڑھاتے رہے۔ استاد جی کا کئی برسوں کے بعد تبادلہ ہوا تو پھر نصابی و غیرنصابی سرگرمیوں میں اسکول پیچھے رہنے لگا، اس کے پودے بھی شاید استاد جی کی یاد میں مرجھانے لگے، سینہ تان کر کھڑے رہنے والے درخت بھی دکھوں کے بوجھ تلے جھک گئے، جھاڑ جھنکاڑ پھیلتا گیا اور جنگل کا روپ دھارتا گیا، یوں لگتا تھا کہ وقت نے پیچھے کا سفر طے کرنا شروع کر دیا ہے جب استاد جی ہمارے گاؤں میں نہیں آئے تھے۔ اسکول کے کمرے بڑھتے گئے مگر بچوں کی تعداد کم ہوتی رہی۔
اپنے استاد جی کا تو تعارف کرایا ہی نہیں۔ ان کا نام اشرف کمال تھا۔ وہ بی اے کرنے کے بعد اسکول ٹیچر لگے اور ان کی پہلی تعیناتی ہمارے گاؤں میں ہی ہوئی تھی۔ استاد جی نے بچوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ایم اے، ایم ایڈ کیا اور اب ایم فل بھی کر چکے ہیں۔ انہیں کئی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ان کا فون آیا کہ وہ ملنا چاہتے ہیں۔ عرض کی کہ کہاں حاضر ہو جاؤں تو کہنے لگے میں ڈیرے پر ہی آ جاتا ہوں۔ استاد جی تشریف لائے، میں گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر ملا۔ حال احوال پوچھنے کے بعد بتانے لگے کہ ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ اب سوچ رہا ہوں کہ ایک ذاتی اسکول بنا لوں۔ میں نے کہا بہت اچھی بات ہے آپ کا برسوں کا تجربہ ہے، اسکول بہت چلے گا۔ کہنے لگے کہ اسکول بنا کے پیسہ تھوڑی کمانا ہے یہ جو ایک نسل ضائع ہو رہی ہے اس کو بچانا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ استاد جی اس بات کا کیا مطلب، تو فرمانے لگے کہ بیٹا میں ایک ایسا اسکول بنانا چاہتا ہوں جہاں پر بچوں کو معیاری تعلیم مل سکے، غیر نصابی سرگرمیاں بھی ہوں، قرآن پاک کی شام میں تعلیم بھی دی جا سکے اور سب سے بڑھ کر کہ اگر کوئی فیس ادا کر سکے تو ٹھیک ورنہ فیس کے بغیر بھی اپنی تعلیم جاری رکھ سکے اور خاص طور بچیاں جن کو والدین پڑھانے کا سوچتے ہی نہیں ہیں۔
میں نے پوچھ لیا کہ کہاں اسکول بنانا چاہتے ہیں تو انہوں نے گاؤں سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک جگہ کا بتایا۔ میں استاد جی کے اس فیصلہ کے حق میں نہیں تھا۔ میں چاہتا تھا کہ استاد جی شہر میں اسکول بنائیں، اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی اور ریٹائرمنٹ کی رقم یہاں اسکول بنا کر ضائع نہ کریں کیونکہ میں یہاں کی عوام کے مزاج کو بہت اچھی طرح سمجھتا ہوں جو بچوں کی تعلیم پر کچھ بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے۔ اگر پیسے آ بھی جائیں تو بھی بکری، بھینس یا پھر بچوں کے لیے زمین خرید لیں گے مگر فیس نہیں دیں گے۔ استاد جی نے مجھے بتایا کہ انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے تھوڑی سی رقم الگ کر لی ہے اور باقی پیسے اسکول پر لگا دیں گے۔ پھر انہوں نے بتایا کہ چند مرلے زمین سید آصف شاہ نے اسکول بنانے کے لیے مفت دی ہے باقی جگہ کی ادائیگی کرنی پڑے گی۔
استاد جی نے اسکول کے لیے جگہ بھی خرید لی تھی اور اسکول کے لیے چند کمرے بھی تعمیر کرا لیے ہیں۔ نئے اسکول میں پھول بھی اگائے جا رہے ہیں اور درخت بھی لگائے جارہے ہیں۔ اس وقت تک اسکول میں بچوں اور بچیوں کی تعداد 120 تک پہنچ چکی ہے۔ بچیوں کے لیے میٹرک جبکہ بچوں کے لیے مڈل تک کی رجسٹریشن بھی کرائی جا چکی ہے۔ استاد جی کی بیگم صاحبہ بھی اپنے شوہر کا ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ کچھ اساتذہ کو بھی ملازمت پر رکھا گیا ہے اور شام کے لیے قاری کا بھی انتظام کیا جا چکا ہے، اس طرح علاقے کے چند لوگوں کو روزگار بھی مل گیا ہے۔ اسکول اس وقت تک بغیر فیس کے چل رہا ہے۔ کچھ والدین فیس کے نام پر چند سو روپے دے دیتے ہیں۔ اسکول کو نہ پیف کے ساتھ رجسٹرڈ کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی سرکاری مدد حاصل ہے۔
میں نے استاد جی کو مشورہ دیا تھا کہ اسکول کے لیے ایک ٹرسٹ قائم کیا جائے تاکہ اسکول کے اخراجات پورے ہو سکیں۔ اب اسکول کے لیے ”احساس ویلفیئر سوسائٹی“ بنائی گئی ہے ۔
اشرف کمال صاحب نے کمال کر دکھایا ہے، جس شخص نے زندگی بھر ٹیوشن نہیں لی، اپنی شہرت کی وجہ سے شہر میں اسکول بنا کر لاکھوں کما سکتے تھے مگر ایسا نہیں کیا۔ برسوں پہلے اہل علاقہ نے جوعزت دی تھی اس کا قرض اتار دیا ہے۔ اب ایک بار پھر ہماری باری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پہلے مدد کو کون آتا ہے۔
عمران بھائی زبردست کاوش. اللہ استقامت دے.