کووڈ 19 ہماری زندگیوں کا اس وقت تک حصہ بننے جا رہی ہے جب تک کہ اس کی کوئی ویکسین نہیں مل جاتی۔ ایسے وقت میں جب دنیا بھر کی حکومتیں لاک ڈاؤن سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں، یوکے نے "ٹیسٹ ، ٹریک اور ٹریس” کی حکمت عملی طے کر لی ہے۔
اس حکمت عملی کا مرکز این ایچ ایس "رابطہ ٹریسنگ ایپ” ہے جس کا رواں ہفتے جزیرہ ” آئل آف وائٹ ” میں تجربہ کیا جارہا ہے۔ اگر یہ تجربہ کامیابی سے ہمکنار ہو گیا تو توقع کی جاتی ہے کہ یہ کچھ ہفتوں میں پورے یوکے میں رواں دواں ہوگی۔ اس کے کام کرنے کیلیے تقریبا 60 فیصد آبادی یا 80 فیصد اسمارٹ فون صارفین میں اسے انسٹال کرنے کی ضرورت ہوگی۔
دنیا بھر میں سمارٹ فون کے ذریعے کورونا کا پھیلاؤ روکنے کی کوششوں میں تیزی آ گئی
لاک ڈاؤن کا تصور پیش کرنے والے سائنسدان کو محبوبہ سے ملنا مہنگا پڑ گیا
لیکن یہ اس کا واحد مسئلہ نہیں ہے۔ اسی ہفتے ہیلتھ سروس جرنل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق رابطے کا پتہ لگانے والی ایپ کلینیکل سیفٹی اور سائبر سیکیورٹی ٹیسٹوں میں ناکام رہی اور یہ لوگوں کی رازداری کے لیے خطرہ ہوسکتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی وہاں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ حد سے بڑھتی ہوئی نگرانی ایک بہت ہی برے اور غیر یقینی مستقبل کا دروازہ کھول دے گی اور جس کا کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ وہ اتناجلد آنے والا ہے۔
ایک پرائیویسی ایکسپرٹ اور انفرادی حقوق و اخلاقیات کی سربراہ رووینہ فیلڈنگ نے کہا کہ صرف وقت بتائے گا کہ اس وبا سے نمٹنے کے لیے کن ممالک کا ردعمل درست تھا۔ لیکن یہ کہنا مناسب ہے کہ برطانیہ کی رابطوں کی خودکار نشاندہی والی اپروچ میں تکنیکی و قانونی خامیاں موجود ہیں۔
ایپ کس طرح کام کرتی ہے؟
اس کا طریقہ کار سادہ ہے، لوگوں کو اپنے آئی او ایس یا اینڈرائیڈ پر یہ ایپ انسٹال کرنے کا کہا جائے گا اور پھر یہ ان کی روزمرہ زندگی کے متعلق معلومات فراہم کرنا شروع کر دے گی۔
یہ آپکی نقل و حرکت پر نظر رکھے گی اور آگر آپ کسی ایسے فرد کے ساتھ رابطے میں آتے ہیں جس کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تو اپ کو ایک الرٹ جاری کیا جائے گا جس میں آپ کو گھر میں رہنے کا کہا جائے گا۔
یہ کونٹیکٹ ٹریسنگ ایپ آپ کے اسمارٹ فون کی بلیوٹوتھ ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے پتا لگاتی ہے کہ کب کسی اور شخص کا فون 6 فٹ فاصلے کے اندر آتا ہے۔
اگر آپ کورونا وائرس جیسی علامات کے ساتھ بیمار ہوتے ہیں تو اپ کو فوری طور پر اس ایپ کو آگاہ کرنا ہوگا تاکہ جو کوئی بھی آپ کے ساتھ قریبی رابطے میں آئے تو اسے اطلاع دی جا سکے۔
ایپ کس قسم کا ڈیٹا اکٹھا کرتی ہے؟
اگر آپ یہ ایپ بلیوٹوتھ این ایبلڈ کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں تو آپ کا اسمارٹ فون ایک خاص قسم کا ڈیٹا (String of numbers) نشر کرے گا جو اس ڈیوائس کے لیے منفرد ہوگا۔
جب آپ یہ ایپ استعمال کرتے ہوئے کسی دوسرے شخص کے ساتھ 6 فٹ کے فاصلے کے درمیان آئیں گے تو یہ ڈیوائسز ایک دوسرے کے ساتھ سٹرنگ آف نمبرز کا تبادلہ کریں گی۔ آپ کا فون ان تمام منفرد کوڈز کو 28 دن کے لیے سٹور کر لیتا ہے اور اگر اس دوران آپ کووڈ 19 کی علامات ظاہر کرتے ہیں تو گمنام شناخت کرنے والے جو آپ کے موبائل میں اسٹور ہوتے ہیں، کو ایک مرکزی نظام پر اپ لوڈ کر دیا جاتا ہے۔
یہ ایپ آپ سے اپ کے پوسٹ کوڈ کا پہلا حصہ بھی پوچھتی ہے اور آپ کے ڈیوائس ماڈل کو بھی ریکارڈ کر لیتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ آپ کے بلیوٹوتھ کے استعمال سے متعلق معلومات اور آپ کے فون کے ساتھ تعامل کرنے والے ایسے دوسرے اسمارٹ فونز کی بھی شناخت کو ریکارڈ کر لیتی ہے۔
برٹش ملٹری انٹیلیجنس کے سابقہ کرنل فلپ انگرام نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس ڈیٹا کو خطرے کے تشخیصی الگورتھم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ایپ بنانے والوں کی جانب سے "گمنام” کا لفظ سیکیورٹی سینس میں استعمال کیا گیا ہے. جس کی تعریف یورپی یونین اپ ڈیٹ ٹو جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن کے تحت مختلف ہے۔
اس میں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ بلیوٹوتھ کے سگنل دیواروں سے بھی گزر سکتے ہیں تو ایسے میں اگر یہ ایپ استعمال کرنے والے دو الگ الگ کمروں میں بیٹھے ہوں تو ان کی غلط نشاندہی ہوسکتی ہے۔ فیلڈنگ نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ عوامل ڈیٹا کے معیار اور تجزیے پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔
مرکزی اور غیرمرکزی ماڈلزمیں کیا فرق ہے ؟
اگرچہ کونٹیکٹ ٹریسنگ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے تاہم برطانیہ نے رازداری کے لحاظ سے بہتر سمجھے جانے والے ایپل اور گوگل کے حمایت یافتہ ماڈلز کی بجائے اپنی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
دوسرے ممالک غیرمرکزی ماڈل کو استعمال کر رہے ہیں جس میں صرف فون ٹو فون بات ہوتی ہے اور معلومات پر مبنی کوئی بیک اپ ڈیٹا بیس موجود نہیں ہوتا۔
اس کے برعکس برطانیہ مرکزی ماڈل کو استعمال کرنے جا رہا ہے جہاں معلومات اور ڈیٹا ایک مرکزی ڈیٹا بیس میں جمع ہو گا، حکومت کا موقف ہے کہ وہ ڈیٹا کو اہمیت دینا چاہتے ہیں جسے تجزیہ کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔
فیلڈنگ نے بتایا کہ مرکزی ڈیٹا کے ماڈل آپ کو علاقائی اور قومی سطح پر مختلف رجحانات اور عادات کی شناخت کرنے کی اجازت دیتا ہے جو کہ غیرمرکزی ماڈل میں ممکن نہیں۔
سائبر سیکورٹی کے ماہر جیک مور کے مطابق مرکزی ماڈل کے استعمال کا مطلب آپ کے ڈیٹا کی ملکیت برطانوی حکومت کے پاس ہو گی اور وہ اسے زیادہ مناسب مانیٹرنگ کے ذریعے رابطوں کا پتا لگانے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔
کیا آپ یہ ایپ استعمال کرنا چاہیں گے؟
تو کیا یو کے کی رابطوں کا پتا لگانے والی ایپ محفوظ ہے اور کیا سب اسے استعمال کرنا چاہیں گے؟ انگرام نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجموعی طور پر ٹریک اور ٹریس کے عمل کی افادیت انفرادی ایپ سے کہیں زیادہ ہے۔ لہذا اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر انھیں رازداری سے متعلق کچھ خدشات ہوئے تو وہ اس ایپ کا استعمال نہیں کریں گے۔
لیکن فیلڈنگ نے اس کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس ایپ کے استعمال سے لاحق خطرات کی قیمت انفرادی اور معاشرتی سطح پر اس کے فوائد سے کہیں زیادہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ یقینی طور پر ایک ایسی ایپ بنانا ممکن ہے جو وباء سے نمٹنے کیلیے کی گئی کوشش میں مدد فراہم کرے لیکن اس کو ایک ایسے انداز میں پیش کرنا چاہیے جو انفرادی اور گروہی زندگی کے تحفظ کی ضامن ہو اور جس میں قانونی و اخلاقی طور پر توازن برقرار رکھا گیا ہو۔ لیکن اس ایپ میں ایسا کچھ نہیں ہے۔