27 سالہ زینب سالہاسال ماں بننے کی خواہش دل میں لیے پھرتی رہی اور آخرکار اس نے کابل کے جنوب مغربی کونے میں واقع ایک اسپتال میں بچے کو جنم دیا جس کا نام اس نے امید رکھا۔
چند گھنٹوں بعد جبکہ وہ بامیان میں موجود اپنے گھر جانے کی تیاری کر رہی تھی، پولیس کی وردی میں ملبوس تین مسلح افراد اسپتال کے زچہ بچہ وارڈ میں داخل ہوئے اور انہوں نے اندھادھند فائرنگ شروع کر دی۔
زینب اس وقت واش روم میں تھی، گولیاں چلنے کی آوازیں سنتے ہی وہ واپس وارڈ کی جانب بھاگی اور وہاں کا نظارہ دیکھتے ہی بیہوش ہو گئی۔
جس بچے کی دنیا میں آمد کے لیے اس نے سالہاسال انتظار کیا تھا، نو ماہ اپنے پیٹ میں پالا اور سات گھنٹے کی اذیت کے بعد جنم دیا تھا، وہ صرف چار گھنٹے بعد ہی لہو میں ڈوبا اس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔
ہم نے اس کا نام امید رکھا تھا
زینب کی ساس زہرہ محمدی نے کہا کہ میں اپنی بہو کو اس لیے کابل لائی تھی تاکہ اس کا بچہ ضائع نہ ہو لیکن آج ہم اس کا مردہ جسم بامیان واپس لے جائیں گے۔
اس کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے ان حاملہ خواتین اور ماؤں کو بھی نہیں بخشا جو اسپتال کے بستر کے نیچے چھپ گئی تھیں۔
محمدی نے کابل سے ٹیلیفون پر رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اچھے مستقبل، افغانستان کی بہتری اور سالہا سال سے بچے کی آرزو دل میں لیے پھرتی اس ماں کا سوچ کر نوزائیدہ بچے کا نام امید رکھا تھا۔
اس نے مزید بتایا کہ خواتین پر فائرنگ کے بعد حملہ آوروں نے بچے کے جھولے پر گولیاں برسا دیں، اس منظر کو دیکھ کر وہ بیہوش ہو گئیں۔
زینب کی ساس نے ماتم کرتے ہوئے بتایا کہ جب مجھے دوبارہ ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ میرے پوتے کا جسم جھولے سے نیچے گر چکا تھا اور وہ لہو میں ڈوبا ہوا تھا۔
کابل کے اسپتال میں کیا ہوا؟
حکومتی عہدیداروں کے مطابق کابل کے دشت برچی اسپتال میں یہ خونی ڈرامہ صبح کے وقت شروع ہوا، حملہ آور فائرنگ کرتے ہوئے اندر داخل ہوئے اور پھر انہوں نے گرینیڈ پھینکنا شروع کر دیے۔
سیکیورٹی فورسز نے حملہ آوروں کو سہ پہر کے قریب مار گرایا۔
100 بستروں پر مشتمل حکومتی اسپتال میں زچہ بچہ کلینک کو ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نامی فلاحی ادارہ چلایا کرتا تھا۔
اسپتال میں ہونے والے اس حملے میں 24 افراد جاں بحق ہوئے ہیں جن میں 16 خواتین اور 2 نوزائیدہ بچے شامل ہیں، اس حملے نے سالہال سال سے خانہ جنگی میں مبتلا افغانستان تک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اس کی ذمہ داری ابھی تک کسی نے قبول نہیں کی۔
کابل کے اتاترک چلڈرن ہسپتال کے ڈائرکٹر ڈاکٹر حسن کامل کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے 20 سالہ کیرئیر میں ایسا خوفناک اور ظالمانہ عمل نہیں دیکھا۔
اس حملے کے دن صوبہ ننگرہار میں ایک جنازے پر ہونے والے خودکش حملے میں 32 افراد ہلاک ہو گئے تھے، ان واقعات کے باعث افغان امن عمل کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
صدر اشرف غنی نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے افغان فوج کو جارحانہ رویہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، امریکی فوجیوں کے ملک سے انخلا کے دوران افغان حکومت کا انداز مدافعانہ رہا تھا۔
طالبان نے کہا ہے کہ یہ دونوں حملے انہوں نے نہیں کیے، داعش کے ایک گروپ پر ننگرہار میں ہونے والی خونریزی کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔