برازیل کے ماہرماحولیات ڈیوڈ لاپولا نے خبردار کیا ہے کہ کورونا کے بعد اگلی وبا ایمازون کے جنگل سے شروع ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس بھی اسی لیے پھیلا ہے کہ انسان نے جانوروں کے مسکن تباہ کر دیے ہیں۔
ماہر ماحولیات نے کہا ہے کہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی بیماریاں اس وجہ سے سامنے آ رہی ہیں کیونکہ جنگل کاٹ کر وہاں انسان اپنی آبادیاں بسا رہا ہے۔
چین اور جنوبی کوریا میں کورونا وبا کی دوسری لہر شروع ہو گئی
دنیا کے 11 لوگ جنہوں نے برسوں پہلے کورونا کی پیش گوئی کر دی تھی
کورونا وائرس کے متعلق سائنسدانوں کا یہی خیال ہے کہ یہ چمگادڑوں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے کیونکہ ہوبائی صوبے میں چینیوں نے شہروں کو وسیع کرنا شروع کر دیا تھا۔
38 سالہ لاپولا کی تحقیق کا میدان خط استوا پر موجود جنگلوں کے نظام پر انسانی سرگرمیوں کے اثرات کا مطالعہ ہے۔
انہوں نے خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایمازون جنگل وائرس کی بےشمار اقسام کی آماجگاہ ہے، بہتر یہی ہے کہ انہیں نہ چھیڑا جائے۔
دنیا کا سب سے بڑا جنگل خطرناک تیزی سے غائب ہو رہا ہے، گزشتہ برس اس کی کٹائی میں 85 فیصد اضافہ ہو گیا ہے جس کے باعث 10 ہزار کلومیٹر کا علاقہ صاف کر دیا گیا ہے۔
رواں برس بھی یہ رفتار اسی طرح قائم ہے، برازیل کے نیشنل سپیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کو موصول ہونے والی سٹیلائیٹ تصاویر سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جنوری سے اپریل کے دوران جنگل کا 1202 مربع کلومیٹرز رقبہ صاف کیا چکا ہے، یہ سال کے پہلے چار ماہ میں جنگل کی کٹائی کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔
لاپولا کا کہنا ہے کہ یہ صرف کرہ ارض کے لیے نہیں بلکہ انسانی صحت کے متعلق بھی بہت بری خبر ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب آپ ماحولیاتی توازن کو بگاڑتے ہیں تو اس موقع پر وائرس چھلانگ لگا کر انسانوں پر حملہ کر دیتا ہے، ایچ آئی وی، ایبولا، ڈینگی، یہ تمام وائرس اس وجہ سے پھیلے ہیں کیونکہ انسانوں نے ماحولیاتی عدم توازن پیدا کر دیا ہے۔
ابھی تک ان وائرس کا پھیلاؤ جنوبی ایشیا اور افریقہ سے شروع ہوا ہے اور انہیں چمگادڑوں کی مخصوص اقسام سے جوڑا جاتا ہے۔
لاپولا کا کہنا ہے کہ ایمازون میں موجود حیاتیات میں اسقدر تنوع ہے کہ یہ خطہ دنیا کا سب سے بڑا کوروناوائرس کا ذخیرہ بن سکتا ہے، ان کا اشارہ کورونا وائرس کی عمومی اقسام کی طرف تھا۔