دوسروں پر بے جا حق ملکیت جتانا ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اس کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان گنت تعلق اس مسئلے کی نذر ہو جاتے ہیں۔ آج کل چونکہ اکثریت سوشل میڈیا استعمال کرتی ہے تو اس مسئلے نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔ جو انسان عدم تحفظ کا شکار ہوتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ میرے ساتھی کو نئے دوست مل گئے تووہ مجھ سے دور ہو جائے گا۔ ایسا شخص جب اپنے دوست کو سوشل ایپس پر ایکٹو دیکھتا ہے تو اس کے احساس عدم تحفظ میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ وہ یہی سوچتا رہتا ہے کہ اس کی جگہ اس کے دوست کی زندگی میں کسی اور نے لے لی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دوست کا آن لائن سٹیٹس اس کی بے چینی میں اضافہ کر دیتا ہے۔ وہ پرسکون نیند بھی کھو بیٹھتا ہے۔ شکایت کرتا ہے تو دوسرے بندے کی پرائیویسی میں مخل ہوتا ہے۔ اس بے جا حق ملکیت جتانے سے وہ غیر ضروری سوچوں میں الجھا رہتا ہے۔ اپنی زندگی بھی آزار کرتا ہے اور خود سے وابستہ لوگوں کی بھی۔ اب اگر تو وہ اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتا ہے اور دوسرے انسان کو اپنی پراپرٹی سمجھتا ہے کہ وہ اپنی زندگی اس کی مرضی سے جئے تو اس کا کوئی حل نہیں اور باقی مضمون پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے جیے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس بات کا حل نکلنا چاہیے تو آئیں کچھ گرہیں کھولنے کوشش کرتے ہیں۔
یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے، اس بات کومان لینا چاہیے کہ یہ اب سب کی زندگیوں کا حصہ ہے، دوسروں سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ سوشل ایپس استعمال نہ کریں، نا انصافی ہو گی۔ ہر شخص اپنے ذوق اور کاروباری ضرورت کے مطابق مصروفیت تلاش کرتا ہے۔ جو شخص سوشل ایپس کی سہولت استعمال نہیں کرنا چاہتا وہ خوشی سے نہ کرے لیکن دوسروں سے تقاضا نہ کرے کہ وہ بھی نہ کریں۔
ہو سکتا ہے ایک انسان کو گھومنے پھرنے کا شوق ہو، اس کی کاروباری ضروریات ایسی ہوں کہ اسے لوگوں سے بالمشافہ ملنا ہوتا ہو تو وہ اپنی مصروفیات اسی طرح مرتب کرے۔ لیکن دوسروں سے یہ توقع نہ رکھے کہ وہ بھی اسی کا لائف سٹائل اپنائیں۔
اپنے آپ کو خوش رکھیں، وہ کام کریں جن سے آپ کو خوشی ملتی ہے اور یہ سمجھیں کہ دوسروں کا بھی حق ہے کہ وہ ایسی مصروفیت رکھیں جس سے انھیں خوشی ملتی ہے۔ دوسروں کو جج کرنا چھوڑ دیں۔ اللہ ہمارے گمان کے ساتھ ہے۔ ہم بے جا قیاس آرائی کر کے خود کو بھی تکلیف دیتے ہیں اور دوسروں کو بھی۔ رشتوں کو اپنی مٹھی میں اتنی سختی سے بھینچنے کی کوشش نہ کریں کہ باقی ہی کچھ نہ بچے۔ خوش دلی سے مشترکہ دلچسپیاں ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔ جب آپ ایک سمت میں ایک ساتھ چلتے ہیں تو زیادہ دیر ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ جب آپ زورڈال کر دوسرے کی دلچسپی تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس زور زبردستی میں آپ دل سے اتر سکتے ہیں۔
جب ہم کسی کو چاہتے ہیں تو کھو دینے کا خوف بجا ہوتا ہے لیکن کسی کو زنجیر سے باندھ کر اپنے ساتھ نہیں رکھا جا سکتا۔ جس کو چاہتے ہیں اس کے زندگی کے مقا صد میں اس کے ساتھی بن جائیں۔ حلقہ احباب کو مشترک کر لیں۔ دور بیٹھ کر دوسروں کو ہنستے بولتے دیکھ کر کڑھنے کے بجائے اپنے آپ کو اس کا حصہ بنائیں۔ شکایتی رویہ دلوں میں دوری پیدا کرتا ہے۔ جب آپ بار بار شکایت کرتے ہیں تو دوسرا انسان ناگواری محسوس کرتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ وہ جو کچھ کر لے آپ کو خوش نہیں رکھ سکتا اور وه رشتے کو بنائے رکھنے کی کوشش ترک کر دیتا ہے۔ اسی کھینچاتانی میں مکمل ترک تعلق ہو جاتا ہے۔
تھوڑی سی معاملہ فہمی سے کام لیں تو اپنی اور دوسروں کی زندگی میں بدمزگی روکی بھی جا سکتی ہے اور رشتے احسن طریقے سے قائم بھی رکھے جا سکتے ہیں۔
بہت عمدہ آپ کا طرز تحریر قابل ستائش ہے ۔ اردو زبان کو زندہ رکھنے کی کوشش بہترین ہے۔