کورونا وبا کے دوران نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن کے دوران دکھ کی داستانوں کے انبار لگ گئے ہیں۔ بھارت میں لاک ڈاؤن کے دوران ایک مزدور کا بیٹا ہلاک ہوگیا اور وہ دکھ کی اس گھڑی میں گھر پہنچنے سے ناکام رہا۔
ایک صحافی نے بیٹے کی موت پر اپنے گھر سے دور، آنسو بہاتے اس مزدور کی تصویر لے لی جسے دیکھ کر دل پھٹ جاتا ہے۔ بھارتی میڈیا میں اس تصویر کو بھرپور کوریج ملی ہے۔ لاک ڈاؤن میں پھنسے اس غریب دکھی شخص کی یہ تصویر مہاجر مزدوروں کے غم کی علامت بن گئی ہے۔
بھارت میں بھوک سے بچنے کیلئے گھروں کو جانیوالے 14 مزدور ٹرین کے نیچے آ گئے
بھارت میں لاک ڈاؤن اپنے گھروں کو جانے والے 23 مزدوروں کو نگل گیا
بھارت میں لاک ڈاؤن سے جڑا ایک اور المیہ، 12 سالہ بچی پیدل چلتے چلتے دم توڑ گئی
اس شخص کا نام رام پکار پنڈٹ ہے اور وہ دہلی میں مزدوری کرتا تھا۔ 11مئی کو دہلی میں وہ ایک سڑک کنارے فون پر روتے ہوئے بات کررہا تھا تو بھارت کے ایک صحافی نے اسکی تصویر لے لی۔ وہ اس وقت دہلی میں اپنے گھر سے 1200 کلومیٹر دور تھا۔ اس کا گھر بیگوسرائے میں ہے جہاں اس کا بیٹا شدید بیمار تھا اور اسے یہ دکھ کھائے جا رہا تھا کہ وہ اپنے بیمار بیٹے کے پاس نہیں پہنچ پائے گا۔
تصویر لیے جانے کے بعد اس مزدور کا بیٹا انتقال کر گیا۔ اس نے پولیس کی منتیں کیں کہ اسے گھر جانے دیا جائے۔ ایک پولیس اہلکار نے اسے یہاں تک کہہ دیا کہ ‘کیا تمہارے گھر جانے سے تمہارا بیٹا زندہ ہو جائے گا۔ یہ لاک ڈاؤن ہے اور تم کہیں نہیں جا سکتے۔’
اس مزدور نے دکھ بھرا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا ایک باپ اپنے بیٹے کی وفات پر گھر نہیں جانا چاہے گا؟
رام پکار پنڈٹ کا کہنا ہے کہ اس دوران ایک صحافی نے اس سے پوچھا کہ وہ اتنا پریشان کیوں ہے۔ اس نے رام پکار کو اپنی گاڑی میں گھر لیجانے کا کہا مگر پولیس نے اسکی اجازت نہ دی۔ پھر ایک خداترس خاتون نے اسے کھانا، پیسے اور خصوصی ٹرین میں ٹکٹ لے دی جس کے بعد وہ اپنے علاقہ بیگوسرائے میں واپس پہنچ گیا۔ اسے ایک قرنطینہ سینٹر میں رکھا گیا ہے اور وہ ابھی تک اپنے گھر والوں سے نہیں مل سکا۔
اس کے بیٹے کی عمر ایک برس تھی۔ اس کی تین بیٹیاں بھی ہیں۔
دکھی رام پکار پنڈٹ کا کہنا ہے کہ امیروں کو مدد مل جاتی ہے۔ انہیں بیرون ملک سے جہازوں پر گھر لایا جاتا ہے مگر غریب مزدوروں کو اپنے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انکی زندگی کی یہی قیمت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم مزدوروں کا کوئی دیش نہیں ہوتا۔’