شوگر اسکینڈل کے اہم کردار جہانگیر ترین نے کہا ہے کہ وہ ہر چیز کے لیے تیار ہیں، وہ سیاستدان ہیں اور سیاست میں اچھا برا وقت آتا رہتا ہے۔
ذمہ دار کون؟
جہانگیر ترین سے سوال کیا گیا کہ ای سی سی سے ایک ملین ٹن چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت کے لیے انہوں نے اسد عمر یا پھر وزیر اعظم عمران خان پر دباؤ ڈالا؟
جہانگیر ترین نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ اسد عمر یا عمران خان سے پوچھ لیں۔ میری چار دن پہلے رزاق داؤد سے بات ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ چینی کے حوالے سے میری کبھی آپ سے بات ہوئی ہے؟رزاق داؤد نے جواب دیا کہ نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ میں اس معاملے میں بہت محتاط آدمی ہوں۔ اسد عمر کو سب جانتے ہیں کہ ان پر کوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا۔
اینکر ندیم ملک نے ان سے سوال کیا کہ دس لاکھ ٹن کے بعد ایک لاکھ ٹن چینی مزید ایکسپورٹ کرنے کی اس وقت اجازت دی گئی جب قیمتوں میں اضافہ ہو چکا تھا، یہ اجازت کس بنیاد پر دی گئی تھی؟ جہانگیر ترین نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ آپ ان سے جا کر پوچھیں۔
انہوں نے کہا کہ ایکسپورٹ کی اجازت اصل وجہ تھی جس کے بعدسب چیزیں خراب ہوئیں، اگر یہ اجازت نہ دی جاتی تو عثمان بزدار سبسڈی نہ دیتے اور ہم جیسے لوگ سبسڈی نہ لیتے۔
جہانگیر ترین نے کہا کہ پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر سبسڈی دی گئی اور میں نے بھی حاصل کی۔ میں نے ن لیگ کے پانچ برسوں کے دوران بھی سبسڈی حاصل کی ہے۔فیصلہ ای سی سی نے کیا ہے، آپ اس کے ممبرز سے جا کر پوچھیں۔
عثمان بزدار کے ذمہ دار ہونے کے سوال پر بھی جہانگیر ترین نے جواب دیا کہ آپ ان سے جا کر پوچھیں، میں شوگر ملز کا مالک ہوں۔
چینی تحقیقات رپورٹ پر کنفیوژن
ایک سوال کے جواب میں جہانگیر ترین نے کہا کہ میں نے سرسری طور پر رپورٹ پڑھی ہے شہزاد اکبر کی پریس کانفرنس سے کنفیوز ہوں، انکوائری رپورٹ کا مقصد دو بار چینی کی قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کرنا تھا لیکن اس پر فوکس کرنے کی بجائے فرانزک آڈٹ کا بہانہ بنایا گیا اور پھر مختلف معاملات میں الجھ گئے کہ یہ بھی غلط تھا اور وہ بھی غلط تھا۔
شوگر اسکینڈل پر کتنی ملز کا آڈٹ ہوا ہے؟
جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ 83 میں 9 سے 10 شوگر ملز کا فرانزک آڈٹ ہوا ہے جن میں ان کی اپنی 3، خسرو بختیار کی ایک،شریف فیملی کی بھی ایک مل تھی جبکہ اومنی گروپ اور ہمایوں اختر خان کی کی شوگر ملز کا فرانزک آڈٹ نہیں کرایا گیا۔
رپورٹ میں ناانصافی ہوئی ہے
انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح سے یہ رپورٹ پیش کی گئی ہے وہ ناانصافی ہے، اس رپورٹ میں دور دور تک انصاف نظر نہیں آ رہا ہے۔ پیداواری لاگت کے حوالے سے جو چھلانگیں ماری گئی ہیں وہ عجیب سی کہانی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شوگر ایسوسی ایشن والے جب تحقیقاتی ٹیم کے پاس گئے تو انہیں تھوڑی سی جھلک دکھائی گئی جس پر شوگر ایسوسی ایشن نے خط لکھاکہ دنیا میں اس طرح کی اکاؤنٹنگ کوئی نہیں کرتا۔ پیداواری لاگت کو لے کر کہتے ہیں کہ انہوں نے اتنا منافع کمایا۔
جہانگیر ترین کو خسارہ کیوں ہوا؟
جہانگیر ترین نے کہا کہ انہوں نے کسانوں کو ہمیشہ مکمل ادائیگی کی ہے اور کنڈے پر بھی کبھی کٹوتی نہیں لگی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے ہمیشہ 180روپے من کے حساب سے ادائیگی کی ہے۔ ایک سال خسارہ بھی برداشت کیا ہے۔
جہانگیر ترین نے کہا کہ ای سی سی کے اجلاسوں میں کبھی نہیں بیٹھا نہ ہی حکومتی فیصلوں کا حصہ رہا۔
جہانگیر ترین کو رگڑا کیوں لگایا جا رہا ہے؟
ان سے سوال کیا گیا کہ پنجاب میں ایک شور اٹھا تھا کہ چوہدری برادران گروپ بندی کر رہے ہیں اور ان کے شہباز شریف کے ساتھ رابطے ہو گئے ہیں تو چوہدری برادران کو نیب کا نوٹس آ گیا تھا۔کیا جہانگیر ترین بھی رگڑے والی فہرست میں شامل ہو گیا ہے؟
انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ صاف شفاف سیاست کرنی چاہیے، رگڑے لگا کر کام نہیں چلتے ہیں۔
جہانگیر ترین کو کس نے نا اہل کرایا؟
ان کی نا اہلی کے حوالے سے ندیم ملک نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیا اس میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کا کردار تھا؟
جہانگیر ترین نے تصدیق کی کہ ان کا کردار تھا۔
انہوں نے کہا کہ پانامہ میں میری نااہلی پارٹی کے لیے میری سب سے بڑی قربانی ہے، نواز شریف کے فیصلہ کو بیلنس کرنے کے لیے مجھے نااہل کیا گیا تھا حالانکہ میں نے اپنے اثاثہ جات ظاہر کیے ہوئے تھے، میری منی ٹریل موجود تھی،میں نے اپنے نہیں بچوں کے کھاتے میں لکھا ہوا تھا اس بنیاد پر مجھے تاحیات نااہل کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ میرے لیے یہ بہت تکلیف دہ بات ہے، میں عمران خان کے شانہ بشانہ نواز شریف کے خلاف بڑھ چڑھ کے نہ لڑتا تو شاید میں تب نااہل نہ ہوتا۔ میرے خلاف انہوں نے پٹیشن ہی نہیں کرنی تھی۔
حکومتی ٹیم کے بارے میں رائے
جہانگیر ترین سے سوال کیا گیا کہ آپ کی پارٹی میں اس وقت داخلی تقسیم کی نوعیت بہت شدید ہے، آدھا حصہ ایک طرف ہے جبکہ باقی آدھا حصہ دوسری طرف کھڑا ہے، اس طرح حکومت نہیں چلا سکتے۔
انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ٹیم ورک کے بغیر حکومت چلانا مشکل ہوتا ہے، ٹیم صحیح نہ ہو تو حکومت نہیں چل سکتی ہے۔ لوگوں کو رگڑا دے کر لمبے عرصہ تک کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔
جہانگیر ترین نے کہا کہ ہماری حکومت میں کرپشن کا کوئی نام و نشان نہیں ہے مگر جو فیصلے ہوئے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔
جہانگیر ترین اچانک نظر انداز کیوں ؟
اس سوال کے جواب میں جہانگیر ترین نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معلوم نہیں کہ ایسا کیوں ہوا لیکن یہ کہانی ہے جو کسی نہ کسی دن ضرور نکلے گی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے تحریک انصاف کو آرگنائز کرنے اور کامیاب کرنے میں اپنی پوری طاقت ایمانداری کے ساتھ لگائی۔ میرے عمران خان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے اور امید ہے رہیں گے۔
جہانگیر ترین نے کہا کہ ایسا ہوتا رہتا ہے کہ کبھی آپ ادھر تو کبھی ادھر ہوتے ہیں۔