سید مصطفیٰ احمد نے جمعرات کے روز تین بار کوشش کی کہ قومی ائیر لائن کی فلائٹ نمبر پی کے 8303 کی سیٹ 13 اے کی رقم آن لائن جمع کرائے لیکن ہر بار سسٹم میں فنی خرابی کی وجہ سے وہ لاہور سے کراچی کی بکنگ نہ کر سکا۔
عرب نیوز کے مطابق احمد جمعہ کے روز شام 5 سے پہلے کراچی پہنچنے کے لیے بیتاب تھا۔ کورونا وبا کی وجہ سے جاری لاک ڈاؤن میں ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے اس کے پاس واحد ذریعہ پی آئی اے کی فلائٹ تھا۔
پی آئی اے کا طیارہ کراچی ایئرپورٹ کےقریب آبادی پر گر گیا، 73 افراد جاں بحق
احمد نے عرب نیوز کو فون کے ذریعے بتایا کہ میں نے سیٹ نمبر 13 اے کی بکنگ کرائی تاہم جب رقم کی آن لائن ادائیگی کا آپشن آیا تو سسٹم میں خرابی پیدا ہو گئی۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے ادائیگی کرنے کی تین بار کوشش کی لیکن ویب سائٹ کی فنی خرابی کے باعث وہ بکنگ کنفرم نہ کر سکا۔ کوششوں کے بعد ذہنی تناؤ کا شکار ہونے والے احمد نے مسئلہ کے سدباب کے لیے ایک نجی ائیر لائن میں کام کرنے والے دوست کو فون کیا۔
جمعہ کی سہ پہر کو A320 ائیر بس جس میں سفر کرنے کے لیے احمد بیتاب تھا کراچی میں ائیرپورٹ کے قریب ایک رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہو گئی، طیارے میں تقریباً 98 مسافر سوار تھے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے شعبے سے منسلک احمد گلگت میں کورونا کے حوالے سے امدادی کاموں میں 90 دن تک رضاکارانہ خدمات انجام دے کر لاہور واپس آئے تھے۔
احمد جو معروف سماجی کارکن عبدالستار ایدھی سے متاثر ہیں اور سرونٹ آف ہیومینیٹی کے نام سے امدادی مہم چلا رہے ہیں کے مطابق وہ اپنے شہر کراچی جانے کے لیے بیتاب تھے جہاں انہوں نے یتیم بچوں کے لیے عید کے سلسلے میں پیکجز تقسیم کرنے اور اس عمل کی تیاری کے لیے کام شروع کرنا تھا۔
احمد نے کہا کہ میں پی آئی اے کی پرواز چاہتا تھا کیونکہ اس کی لینڈنگ شام 5 بجے سے پہلے یقینی تھی۔ نجی ائیرلائن میں موجود انکے دوست نے اپنے فری ٹکٹ پر انہیں سفر کرنے کی پیشکش کی جبکہ نجی ائیر لائن کی پرواز بھی جمعرات کے روز تھی۔
انہوں نے بتایا کہ میں پچکچا رہا تھا مگر دوست کے اصرار پر میں نے اس کی بات مان لی اور ٹکٹ کی عید پر دینے والے رقم عطیہ کے لیے مختص کرلی۔
انہوں نے کہا کہ جیسے ہی میں نجی ائیرلائن سے کراچی ائیرپورٹ پر باحفاظت اترا، مجھے موبائل پر نوٹیفیکیش موصول ہوا کہ سسٹم میں خرابی کو دور کر دیا گیا ہے اور کیا پی آئی اے کی بکنگ کرنا چاہیں گے لیکن اس وقت تک میں گھر پہنچ چکا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جیسے ہی پی آئی اے کے طیارے کے کریش ہونے کی خبر آئی تو عزیز و اقارب کی فون کالز کا تانتا بندھ گیا۔
انہوں نے کہا کہ میں سب کو بتانا بھول گیا تھا کہ میں پی آئی اے کی پرواز سے بھی پہلے پہنچ رہا ہوں اور سب یہ سمجھ رہے تھے کہ میں اس بدقسمت طیارے میں ہوں۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں آپ اسے قسمت کہہ سکتے ہیں لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے منصوبے کچھ اور ہوتے ہیں اور اللہ کے ہمارے لیے فیصلے کچھ اور ہوتے ہیں۔