معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ پاکستان میں کورونا کی وبا بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے مریضوں کی تعداد اور اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عید پر لاک ڈاؤن میں بھی نرمی کی گئی ہے۔ بازاروں کو بھی کھول دیا گیا ہے جس کی وجہ سے لگتا ہے کہ پاکستان میں کورونا بیماری نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور ہمیں اس سلسلے میں کسی ذمہ داری کا احساس نہیں ہے۔
معاون خصوصی صحت نے کہا ہے کہ پاکستان میں کورونا وبا کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ یہ بیماری بڑھ رہی ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی علم نہیں کہ کب تک یہ بیماری بڑھتی چلی جائے گی۔
حکومت پنجاب کے دو وزراء میں کورونا کی تصدیق ہو گئی
معروف ٹی وی اداکار یاسر نواز، ندا یاسر اور نوید رضا کا کورونا ٹیسٹ مثبت آ گیا
ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ ہم عید کی خوشیاں منا رہے ہیں، باہر جا رہے ہیں اور لوگوں کو مل رہے ہیں حالانکہ بار بار یہ بات بتائی اور سمجھائی گئی ہے کہ یہ مختلف عید ہے، ہمیں گلے نہیں ملنا، کسی سے مصافحہ نہیں کرنا اور سماجی فاصلہ کا خیال رکھنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشاہدے میں یہ بات آ رہی ہے کہ پاکستانی یہ سمجھ رہے ہیں کہ عید تک یہ بیماری تھی اور عید کے بعد یہ ختم ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے، میں پاکستانیوں کو تنبیہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم نے اس سلسلے میں احتیاطی رویہ نہ اختیار کیا تو صورتحال بہت بڑے المیے میں تبدیل ہونے جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں بہت زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت دنیا بھر میں 55لاکھ کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے اور اس کی وجہ سے ساڑھے تین لاکھ اموات ہو چکی ہیں۔ اس بیماری میں 42 فیصد لوگ مکمل صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر ظفر مرزا نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان اس سطح تک ٹیسٹنگ نہیں بڑھا سکا جس حد تک حکومت بڑھانا چاہتی تھی مگر بتدریج ٹیسٹنگ میں اضافہ ہوتا رہا ہے اور اسے مزید وسیع کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ 25 مئی تک پاکستان میں مجموعی طور پر 4 لاکھ 83 ہزار 656 ٹیسٹ ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں 56349 کیسز کنفرم ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں 31 فیصد مریض صحت یاب ہو چکے ہیں جبکہ 37 ہزار 700 ایکٹو کیسز ہیں۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے اعدادو شمار کے مطابق 4365 کورونا وائرس کی بیماری میں مبتلا لوگ پاکستان کے مختلف شہروں میں داخل ہیں جن میں 112 افراد وینٹی لیٹرز پر ہیں جو زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ کیسز ہمارے تخمینوں سے کم ہیں مگر بتدریج ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں 1157 افراداس بیماری کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 34 افراد کورونا کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ یہ غلط سوچ ہے کہ پاکستان میں کورونا کے پھیلاؤ کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اموات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور اگر ہم نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا تو آنے والے دنوں میں اموات میں بہت اضافہ ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آپ کو مسجد جانے، بسوں میں سفر کرنے، بازار اور دکانوں کے اندر جانے کے لیے ایس او پیز دیے۔ اخبارات، ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ذریعے بھی اس کی تفصیلات کے بارے میں بتایا لیکن عید پر یہ مشاہدہ رہا کہ ان پر عمل نہیں کیا جا رہا۔
معاون خصوصی صحت نے کہا ہے کہ عید کے فوری بعد حکومت حالات کا دوبارہ جائزہ لےگی اور اگر ایس او پیز پر عملدرآمد ہوتا نظر نہ آیا تو حکومت یقینی طور پر اپنے لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلہ پر نظر ثانی کرے گی۔
ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ یہ چیز ہمارے ہاتھ میں ہے کہ اگر ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کریں تو زندگی کا پہیہ بھی چل سکتا ہے، روزگار بھی جاری رہ سکتا ہے اور بیماری کے پھیلاؤ کو روکا بھی جا سکتا ہے لیکن اگر ہم نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا تو بیماری بھی پھیلے گی اور ہمیں لاک ڈاؤن بھی کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے زندگیاں بھی مشکل ہوں گی اور پاکستان کی معیشت پر بھی گہری چوٹ لگے گی۔
ڈاکٹر ظفر مرزا نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اس بیماری کو روکنے کا سبب بنیں، اس کے پھیلاؤ کا نہیں۔ سماجی فاصلہ قائم رکھیں۔ پر ہجوم جگہوں پر ماسک پہن کے جائیں۔ ایس او پیز کی پابندی کریں۔