امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازعہ پوسٹ ڈیلیٹ نہ کرنے پر فیس بک کے کئی ملازمین نے کمپنی اور اس کے بانی مارک زکربرگ سے سخت ناراض ہیں۔
امریکہ میں مظاہرے، صدر ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس کے بنکر میں چھپنا پڑا
صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا کمپنیوں کو بند کر دینے کی دھمکی کیوں دی؟
منی پولس میں سیاہ فام باشندے جارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد امریکہ میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے، صدر ٹرمپ نے فیس بک پوسٹ میں مظاہرین کو لٹیرے کہتے ہوئے اشارہ دیا تھا کہ انہیں گولی بھی ماری جا سکتی ہے۔
انہوں نے فیس بک اور ٹویٹر، دونوں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لکھا تھا کہ یہ لٹیرے (مظاہرین) جارج فلائیڈ کی رسوائی کا باعث ہیں اور میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔
انہوں نے مزید لکھا تھا کہ میں نے ابھی گورنر ٹم والز سے بات کی ہے اور انہیں بتایا ہے کہ فوج پوری طرح ان کے ساتھ ہے، کسی بھی مشکل کی صورت میں ہم کنٹرول سنبھال لیں گے لیکن جب لوٹ مار شروع ہوتی ہے تو گولیاں چلنا بھی شروع ہو جاتی ہیں۔
ٹویٹر نے ان کی اس ٹویٹ اس تنبیہ کے نیچے چھپا دیا کہ یہ تشدد کو گلوریفائی کرتی ہے اور ٹویٹ کی شیئرنگ بھی محدود کر دی تھی۔
اس کے برعکس فیس بک نے کوئی ایکشن نہ لینے کا فیصلہ کیا اور امریکی صدر کی پوسٹ اس وقت بھی موجود ہے، مارک زکربرگ کا کہنا ہے کہ فیس بک کو سچائی کا فیصلہ کرنے والے کا کردار نہیں ادا کرنا چاہیئے۔
برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ کے مطابق فیس بک کے بہت سے ملازمین اس فیصلے کے خلاف بول رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کمپنی نے غلط کام کیا ہے اور یا تو پوسٹ کو فلیگ کر دینا چاہیئے یا پھر اسے فیس بک سے ہٹا دینا چاہئے۔
فیس بک کے ڈائرکٹر آف پراڈکٹ مینیجمنٹ جیسن ٹف نے لکھا ہے کہ میں فیس بک کے لیے کام کرتا ہوں اور ہم جو کر رہے ہیں اس پر ہمیں بالکل فخر نہیں ہے، میرے ساتھ کام کرنے والوں کی اکثریت ایسا ہی سوچ رہی ہے، ہم اس حوالے سے آواز بلند کر رہے ہیں۔
فیس بک ویڈیو چیٹ کے ہارڈوئیر کے ہیڈ آف ڈیزائن اینڈریو چو نے لکھا ہے کہ تشدد پر اکسانے اور غلط معلومات پھیلانے کے لیے اپنا پلیٹ فارم استعمال کرنے کی اجازت دینا ناقابل قبول ہے، اس معاملے میں یہ نہیں دیکھنا چاہیئے کہ ایسا کرنے والا کون ہے۔